انتخابات : انتظار کی گھڑیاں

کسی بھی سیاسی جماعت نے انتخاباتی مہم کا آغاز نہیں کیا

پاکستان میں منتخب قومی اسمبلی اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو چکی ہے۔ اب نئی اسمبلی کے انتخاب کے لیے نئے الیکشنز کا انتظار ہو رہا ہے۔

عام طور پر قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد ملک میں یا تو مارشل لا کی خاموشی ہوتی ہے یا پھر اگلے الیکشن کی گہما گہمی۔ عجیب بات ہے کہ اس بار دونوں ہی نہیں ہیں۔ یعنی نہ تو ملک میں مارشل لا ہے اور نہ ہی عام انتخابات کا بگل بجا ہے۔ 
صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے چیئرمین سمیت 9 مئی کے ہنگاموں کو بھگت رہی ہے تو ن لیگ کی قیادت ایک بار پھر لندن میں گوشہ نشین ہے۔
مزید پڑھیں

صدر نے الیکشن کمیشن کے خط پر وزارتِ قانون سے رائے مانگ لی

الیکشن 90 روز میں نہ ہوئے تو آئینی بحران پیدا ہو جائے گا: پیپلز پارٹی

پیپلزپارٹی نے البتہ جمعے کے روز خاموشی توڑ دی ہے اور90 دن کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کروانے کے لیے ایک بیٹھک کا اہتمام کیا ہے۔ 
لاہور جو سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ مانا جاتا ہے وہ بھی خاموش ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کا دفتر بھی آباد دکھائی نہیں دیتا۔ نو مولود استحکام پاکستان پارٹی کی گاہے گاہے کوئی سرگرمی نظر آجاتی ہے لیکن وہ بھی فوٹو سیشن تک محدود ہے۔ 
اس ساری صورت حال سے ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا ملک عام انتخابات واقعی کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں رہی؟ اور کیا الیکشن ہو بھی رہے ہیں یا نہیں؟

ملک کی موجودہ صورت حال میں کسی سیاسی گہما گہمی کا نہ ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت کے بجائے اگلے سال ہوں گے اور سیاسی جماعتوں کی خاموشی کا مطلب ہے کہ اندرونی طور پر ان کی مقتدرہ سے مفاہمت ہے لیکن اس بات کا ہر گز مطلب نہیں کہ میں انتخابات میں کوئی غیر معمولی تاخیر بھی دیکھ رہا ہوں ہے۔ یہ صرف چند ایک مہینوں کا معاملہ ہے۔ مطلوبہ صورت حال بنتے ہی الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے دے گا تو پھر یہ گہما گہمی بھی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔

ملک میں تمام سیاسی جماعتوں نے ابھی عوامی رابطہ مہم شروع نہیں کی ہے۔ مسلم لیگ ن کی راہنما مریم نواز صرف مختلف ملک کے سفیروں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں یا پھر جماعت کے اندرورنی معاملات کو دیکھتی ہیں۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جو اس وقت ملک کی معاشی صورت حال ہے، خاص طور پر بجلی کے بلوں نے لوگوں کو متاثر کیا ہے اس سے بھی سیاسی معاملات ماند پڑے ہیں۔

اس وقت فیصلہ ساز چاہے وہ سیاسی ہوں یا اسٹیبلشمنٹ ان کے سامنے ملکی معیشت کی صورت حال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد کبھی بھی پاکستان میں اتنا سیاسی سناٹا نہیں دیکھا گیا۔ یہ ایک نئی بات ضرور ہے لیکن سمجھ میں آنے والی بات بھی ہے۔‘
’میرا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت چونکہ پچھلی حکومت میں تھی اس لیے انہیں حالات کا بخوبی ادراک ہے۔ اس سب کو اندازہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جب بھی تاریخ کا اعلان کرے گا تو اس کے بعد ہی وہ میدان عمل میں آئیں گے۔‘ 

دوسری طرف پاکستان کے مقامی میڈیا پر یہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف جو ستمبر کے مہینے میں وطن واپس آنے کا ارادہ رکھتے تھے اب اسے بھی ملتوی کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے ن لیگ نے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا لیکن جمعے کو لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ نواز شریف اکتبوبر میں پاکستان واپس آئیں گے۔


 سیاسی مبصرین کا یہی ماننا ہے کہ انتخابات کے حوالے سیاسی سرگرمیوں کے آغاز میں ابھی کافی وقت ہے اور اس کی کنجی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔