خدمت کا جذبہ‘انمول دولت 

آج کل کی تیز ترین زندگی میں انسان کو انسان کی نہیں سوجھ رہی اور ہر کوئی بس ایک سمت میں دوڑتا چلا جارہا ہے ، اسے نہیں معلوم کہ ساتھ کون ہے ، آگے کون ہے اور میرے پیچھے کیا ہورہاہے ۔ تاہم ان حالات میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو دوسروں کی ضرورتوں اورحاجتوں کو پورا کرنے میں خاموشی سے لگے رہتے ہیں۔مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک استاد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اگر آپ اپنی آنکھیں بالکل کھلی رکھیں۔ جو یقیناکھلی رکھتے ہیں‘ کان بھی ‘ تو آپکو اردگرد اتنی کہانیاں ملیں گی‘ جن کے اوپر آپ نے اس سے پہلے توجہ نہیں دی ہوگی۔ ہمارے استاد تھے پروفیسر غلام مصطفی تبسم صاحب‘ تو ہم سیانے تھے‘ میں ففتھ ائیر میں پڑھتاتھا ان کی ایک عادت تھی کہ جب کسی کی شادی ہوتی تھی نا‘ لڑکی کے گھر والوں میں ‘ تو ان کے گھر جاکر بارات کو کھانا کھلانے کا بندوبست ان کے سر پر ہوتا تھا۔ تو صوفی صاحب نے ہم کو کہا کہ چلو بھئی فلاں گھر میں کھانا برتانا ہے‘وہاں چلے گئے۔ انہوں نے کہا‘ لوجی صوفی صاحب آگئے‘ فکر کی کوئی بات نہیں‘ دیگیں آئیں۔ اب جو بارات تھی اس کے بارے خیال تھا کہ 80 کے قریب بندے ہوں گے‘ وہ 160 کے قریب آگئے‘اب صوفی صاحب کی آنکھیں‘ اگر آپ میں سے کسی کو یاد ہیں‘ بہت موٹی تھیں‘ گھبرا گئے اور ان کے ماتھے پر پسینہ اور ناک پر بھی آجاتا تھا‘کہنے لگے‘ اشفاق ہن کیہہ کرئیے۔ میں نے کہا‘ پتا نہیںدیگوں میں پانی ڈال دیتے ہیں‘ پہلا موقع تھا۔ میں ففتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا‘ انہوںنے ایک تھپڑ مارامیرے منہ پر۔ زور سے‘کہنے لگے‘ بیوقوف آدمی اس میں پانی‘ ڈال کے مرنا ہے۔ وہ تو فوراً ختم ہو جائے گا۔ اس میں گھی کا پیپا ایک اور ڈالنا ہے۔ گاڑھا ہو جائے گا تو کھایا نہیں جاتا‘ اب ہم اندر سروے کررہے تھے اور صوفی صاحب بیچ میں سے نکال کے ڈالتے جاتے تھے‘ ہم باراتیوں سے کہتے اور لائیں‘ وہ کہتے تھے گرم لاﺅجی۔ ہم تو بھاگے پھرتے تھے‘اب آخر کیفیت یہ آگئی کہ دیگیں ختم ہوگئیںاور ان کا چہرہ دیکھنے والا تھا وہ کانپ رہے تھے‘ اگر کسی نے اندر سے کہہ دیا کہ اور کاب بھیجیں‘ تو ان کے پاس دینے کیلئے صرف ایک رہ گئی تھی لیکن وہ ڈرے ہوئے تھے‘جب خوفزدہ تھے تو اندر سے آواز آئی بس۔ جب دوسرے بندے نے کہا‘بس جی صوفی صاحب‘تو صوفی صاحب کے ہاتھ میں جو پکڑا ہوتا تھا وہ گرا‘ اور اتنی شدت سے پیچھے گرے کہ وہ بڑا ساکڑھاﺅ تھا‘ شکر ہے‘ انکے سر پر نہیں لگا تو ہم نے اٹھاکے ان کو بستر پر لٹایا اور ٹانگیں پاﺅں دبائے۔ جب تلی مالش کی اٹھ کے بیٹھ گئے‘ میں نے کہا‘ ایسی ٹینشن کاکام آئندہ نہیں کرنا‘ کہنے لگے‘ نہیں بالکل نہیں‘ میری بھی توبہ۔ وہاں سے ہم چل پڑے‘ پیچھے ہم شاگرد‘ اب آگے آگے صوفی صاحب، کوئی پندرہ بیس گز سے زیادہ گئے ہوں گے۔ ایک مائی باہر نکلی‘ کہنے لگی‘ لو غلام مصطفی میں تو تینوںلبھ دی پھرنی آں۔ ”تاریخ رکھ دتی اے۔ تیرہ بھادوں دی کاکی دی“تو صوفی صاحب جو توبہ کرکے نکلے‘ کہنے لگے‘ کاغذ ہے‘ ہاں پنسل ہے۔ کہنے لگے‘ ہاں۔ لکھ تیرہ سیر گوشت ایک بوری چول صوفی صاحب لکھوا رہے ہیںتو میں نے کہا‘ جی یہ پھر ہوگا۔ کہنے لگے‘ نہیں یہ تو ان کی ضرورت ہے۔ اشفاق احمد کی نشری تقاریر سے اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ دوسروں کی خدمت اور حاجت پورا کرنے میں حاصل ہونے والا اطمینان ہے جو ایک انمول دولت ہے ۔جس کے حصول کے بعد ہی اس کی قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے ۔