گرمی کی لہر 

موسمیاتی سائنسدان برسوں سے جس موسمیاتی تبدیلی کے بارے خبردار کر رہے تھے بالآخر وہ واقعات ایک ایک کر کے رونما ہو رہے ہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر نے جان بوجھ کر تمام انتباہوں کو نظر انداز کئے رکھا۔ عمومی طور پر آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی مایوس کن پیشگوئی کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے اور اِسے مذاق قرار دیتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ ماحول کا تحفظ اور اِس سے متعلق باتیں تو ترقی یافتہ ممالک کا مسئلہ ہے‘ پاکستان کو اِس سے کیا لینا دینا لیکن آج پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے شکار ہے اور ہر سال سیلاب یہاں کا معمول بن چکے ہیں۔ دنیا آب و ہوا کی تبدیلی کے ناقابل تلافی اور بڑے پیمانے پر اثرات سے نمٹ رہی ہے۔ ہیٹ ویو‘ خشک سالی اور گرم سردی معمول بن چکے ہیں۔ عالمی ادارہ موسمیات کے مطابق رواں برس (دوہزارتیئس) کا موسم گرما اب تک کا گرم ترین موسم رہا ہے۔ جس میں درجہ¿ حرارت اوسط درجہ سے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم رہا۔ بھارت اور جاپان میں ہیٹ ویو سے لے کر آسٹریلیا میں حیرت انگیز طور پر گرم موسم سرما تک‘ عالمی موسمی پیٹرن میں تبدیلی خطرناک رہی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ ال نینو کا نتیجہ ہے‘ جو بحر الکاہل کے کچھ حصوں میں عارضی طور پر گرمی کا ایک قدرتی مظہر ہے لیکن تیل‘ قدرتی گیس اور کوئلے کو جلانے کی وجہ سے موسم گرم اور فضا آلودہ ہو رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جنہوں نے اپنے فائدے کے لئے کرہ ارض کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ شدید ہیٹ ویو غریبوں اور کم وسائل والے افراد کے لئے اموات اور تباہی کا باعث بن رہی ہے کیونکہ کم آمدنی رکھنے والوں کے پاس اتنے وسائل اور متبادل ذرائع نہیں ہوتے کہ وہ خود کو تپتی ہوئی دھوپ (گرمی کی لہر) سے بچا سکیں۔ دنیا ترقی یافتہ اور ترقی پذیر نہیں بلکہ امیر و غریب کی شدید تقسیم رکھتی ہے اور یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے جس میں وسائل کی منصفانہ و مساویانہ نہیں ہوتی۔پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاس موسمیاتی چیلنج سے لڑنے کے لئے بہت کم وسائل موجود ہیں لیکن عدم توجہینے ملک کے عوام کے لئے ’گلوبل وارمنگ‘ کے بڑھتے ہوئے نقصان دہ اثرات سے نمٹنے کے لئے حالات اور بھی خراب کر دیئے ہیں۔ پاکستان کے بین الاقوامی امداد پر خصوصی انحصار کو ماحولیاتی ماہرین نے مسترد کیا ہے اگرچہ بین الاقوامی برادری کو موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرنے والے ممالک کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھانا چاہئے لیکن اپنی مدد آپ کے تحت بھی کام کی ضرورت ہے۔ پہلا قدم ماحولیاتی نقصان کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرنا ہے‘بے لگام عمودی تعمیر کی وجہ سے مناسب وینٹیلیشن سسٹم کے بغیر چھوٹے گھر موسمیاتی درجہ حرارت سے میل نہیں کھاتے۔ اس کے علاوہ ملک میں بجلی کے بحران کی وجہ سے ایسے بند گھروں میں جب گھنٹوں پنکھے نہیں چلتے تو اُن میں رہائش ممکن نہیں رہتی۔ ایک ایسے وقت میں جب زمین واقعی جل رہی ہے‘ بجلی کی کمی نے معاملات کو اور بھی ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے مناسب ماحولیاتی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔