پاک چین تعلقات کا تاریخی ارتقا اور علاقائی اور عالمی منظرنامے کے تناظر میں اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت بین الریاستی تعلقات میں مثالی حیثیت کی حامل ہے‘مضبوط سیاسی حمایت، باہمی اعتماد اور ہمہ جہت عملی تعاون سے سات دہائیوں میں تشکیل پانے والا یہ منفرد رشتہ اب ایک مضبوط تزویراتی شراکت داری کی شکل اختیار کر چکا ہے‘میں عالمی تعاون کیلئے بیجنگ میں ہونے والے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کر رہا ہوں‘ دنیا بھر کی ترقی کیلئے دس برس قبل شروع ہونےوالا یہ پروگرام صدر شی جن پنگ کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘جنہوں نے دس سال قبل ترقی کیلئے بنی نوعِ انسان کو ایک کمیونٹی قرار دیتے ہوئے مشترکہ مستقبل کیلئے عالمی ترقیاتی شراکت داری اورعالمی گورننس کا نیا تصور پیش کیا۔اس مدبرانہ تصور کا مرکزی نکتہ ایک ایسی سماجی اور اقتصادی ترقی ہے جس میں سب شامل ہوں، سب کا فائدہ ہو اور سب کی فتح ہو‘ یہ ایک آپس میں جڑی ہوئی صاف ستھری، پر امن اور خوبصورت دنیا کا تصور ہے ایک ایسی دنیا جو سب کیلئے ہے اور جس میں کسی کیلئے کوئی خطرہ نہیںجوں جوں ہم اس خیال کی گہرائی میں اترتے ہیں، واضح ہوتا جاتا ہے کہ یہ تصور قدیم چینی فلسفے اور حکمت پر مبنی ہے۔ چینی تصور تیان زی ہے tianxihe)جسے ہم اردو میں ”آسمان کے نیچے ہم آہنگی“کہہ سکتے ہیں، پوری دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے اورپائیدارامن کیلئے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون پر زور دیتا ہے‘ چینی ریاستی کونسل کی جانب سے حال ہی میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بی آر آئی مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری کا ایک اہم ستون ہے‘ بی آر آئی کے بعد سامنے آنےوالے تصورات بشمول گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو، گلوبل سکیورٹی انیشیٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹوسے ”مشترکہ کمیونٹی“کا تصور مزیدواضح ہو جاتاہے‘پاکستان بی آر آئی میں شامل ہونے والے اولین ممالک میں سے ہے‘چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے پرچم بردار کے طور پر سی پیک پاک چین تعلقات میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے‘سی پیک کے ذریعے اقتصادی تعاون پاک چین تعلقات کا مرکزی نقطہ بن چکے ہیں اوراس وقت دونوں ممالک پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ سی پیک اقتصادی خوشحالی اور رابطے کے حوالے سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے خواب کی بہترین تعبیر کے طور پر سامنے آیا ہے‘ سی پیک پاکستان کے سماجی و اقتصادی منظر نامے میں انقلابی تبدیلیاں لاتا جا رہا ہے اس سے جدید انفراسٹرکچر وجود میں آیا ہے، علاقائی رابطے بہتر ہوئے ہیں، توانائی کی کمی پوری ہوئی ہے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اس سال پاکستان نے سی پیک کی کامیاب پہلی دہائی کے موقع پر کئی تقریبات اور سرگرمیوں کی میزبانی کی‘چین پاکستان اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات میں شرکت کےلئے صدر شی جن پنگ کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے چین کے نائب وزیر اعظم ہی لائفنگ پاکستان تشریف لائے جن کا پاکستان میں خیرمقدم کرتے ہوئے ہمیں بے حد مسرت ہوئی‘پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ معیار کے حامل منصوبوں پر کام کیلئے تیار ہے اور دوسرے مرحلے کی کامیاب تکمیل کےلئے پرعزم ہے ہم سی پیک کو ترقی اور روزگار کی فراہمی کا اہم ذریعہ جانتے ہیں اور سبز معیشت،نئی ٹیکنالوجی، مل جل کر ترقی کرنے اور کھلی معیشت کیلئے چین کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہیں‘ پاکستان جی ڈی آئی گروپ آف فرینڈز کا بھی ایک اہم رکن ہے اور اس نے اسے مزید ٹھوس شکل دینے میں فعال کردار ادا کیا ہے پاکستان جی ڈی آئی کے تحت پہلا ترجیحی شراکت دار اورمفاہمت نامے پر دستخط کرنے والا پہلاملک ہونے کی حیثیت سے تعلیم، صحت، موسمیاتی تبدیلی اور غربت میں کمی کے شعبوں میں تعاون سے بروقت اندازمیں مستفید ہونے کےلئے تیار ہے اس طرح ہمیں پائیدار ترقی کے مقاصدبر وقت حاصل کرنے میں مدد ملے گی پاکستان جی ایس آئی کی بھی حمایت کرتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور کثیرالجہتی اصولوں اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت سے مطابقت جانتا ہے‘مدت سے حل طلب تنازعات اور دہشت گردی سے نقصان اٹھانے کی بنا پر ہم جنوبی ایشیا میں علاقائی امن کو یقینی بنانے کےلئے باہمی احترام پر مبنی بات چیت کی بھی حمایت کرتے ہیں‘جی سی آئی صدر شی جن پنگ کا ایک اور تاریخی اور بروقت اقدام ہے جس میں تنوع، پرامن بقائے باہمی، ایک دوسرے سے سیکھنے اور جامعیت کے احترام کو فروغ دیا گیا ہے جو اختلاف اور تفرقہ سے دوچار دنیا میں تہذیبوں کے درمیان مکالمے، امن اور مفاہمت کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد ہمیشہ”اندرونی و بیرونی امن“ رہے ہیں لہٰذا، صدر شی جن پنگ کی طرف سے پیش کئے گئے ان اہم اقدامات کی توثیق پاکستان کےلئے فطری تھی۔تنازعات، معاشی کساد بازاری، غذائی عدم تحفظ، سماجی عدم مساوات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے متعدد چیلنجوں سے دوچار دنیا میں پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی اہمیت بہت زیادہ ہے‘ یہ دونوں ممالک کے عوام کے لئے فخر اور سکون کا باعث ہے اور خطے کے اندراورباہر امن و استحکام کا عنصر ہے۔ ہمارا ماضی، حال اور مستقبل کا رشتہ ہے اور کوئی چیز اس حقیقت کو بدل نہیں ہوسکتی‘ہماری دیرینہ روایات کے مطابق ہم اپنے بنیادی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ہم پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سا لمیت، اقتصادی استحکام اور جموں و کشمیر کے معاملے پر چین کی اصولی حمایت کیلئے اس کے شکرگزار ہیں ہم ون چائنا پالیسی کےلئے اپنی وابستگی اور تائیوان، ہانگ کانگ، تبت، سنکیانگ اور بحیرہ جنوبی چین سمیت اس کے بنیادی مسائل پر چین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں‘قریبی دوستوں، سٹریٹجک پارٹنرز اور آہنی بھائیوں کی حیثیت سے پاکستان اور چین مشترکہ مستقبل کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری دوستی آنےوالے دنوں میں مزید مضبوط ہوگی اور آنےوالے برسوں میں اس کو مزید فروغ حاصل ہو گا۔
اشتہار
مقبول خبریں
افغانستان اپنے ماضی سے سبق سیکھے گا؟
مہمان کالم
مہمان کالم
پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین اعظم خان
مہمان کالم
مہمان کالم