’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ ماضی و حال : تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار

لیول پلیئنگ فیلڈ کا بظاہر یہی مطلب ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو انتخابی میدان میں اُترنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔

نئے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود 2018 میں حکومت سازی کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اُس جماعت کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں ہیں۔

سنہ 2018 میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز جیل میں تھے اور ہر سو ان سے متعلق کرپشن کی کہانیاں زبان ذد عام تھیں۔

سنہ 2013 میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا بڑا شور تھا۔ امیدواروں کی اہلیت کو مذہبی سوالات کے ذریعے جانچنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

سنہ 2008 کے عام انتخابات میں جعلی ڈگریوں پر بعض امیدوار نااہل قرار پائے، چودھری شجاعت نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’پی پی پی کا مشرف کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تھا، ہمیں ہروانے کے لیے پکا بندوبست کیا گیا۔‘

سنہ 2002 کے الیکشن میں بی اے کی شرط لگا کر بعض سیاست دانوں کو سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا۔ مسلم لیگ ن کو توڑ کر ق لیگ بنائی گئی۔

سنہ 1997 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے حوالے سے کرپشن کی کہانیاں ہر خاص و عام کی زبان پر تھیں۔ اسی طرح سنہ 1993 میں بھی پیپلزپارٹی کے حوالے سے کرپشن کا پروپیگنڈا سننے کو ملتا رہا۔

سنہ 1990 اور سنہ 1988 کے انتخابات میں پروپیگنڈا کے ساتھ ساتھ بات کردار کشی تک پہنچ گئی۔ پیپلزپارٹی کے خلاف آئی جے آئی اتحاد بنا اور کھلم کھلا پیسہ خرچ کیا گیا۔

سنہ 1985 کا الیکشن تو نرالا ثابت ہوا۔ الیکٹ ایبلز اور برادری کلچر کی راہ ہموار ہوئی۔

سنہ 1977 کے الیکشن میں سیاسی اتحاد بنا جس نے نتائج کو تسلیم نہ کیا۔ سیاسی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔

اس طرح 1970 کے الیکشن میں دائیں بازوں کی جماعتوں کو اخلاقی ومالی سپورٹ بھی مہیا ہوئی۔