کھانے پینے کا انتظام

 
معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریل کے سفر میں ماضی کے کھانے پینے کے انتظام سے متعلق بتاتے ہیں کہ شالیمار ایکسپریس چلی جارہی تھی بیروں سے میری گفتگو جاری تھی کہ اتنے میں بوفے کار کے نگراں سلیم خان صاحب آگئے میں نے ان سے کہا کہ آج تو نشستوں کی پشت پر چھوٹی چھوٹی میزیں اڑا کر ان کے اوپر کھانا رکھا جارہا ہے مجھے یاد ہے تیزگام میں نہایت شان دار ڈائننگ کار لگاکرتی تھی ہم لوگ اچھا لباس پہن کر اس میں جاتے تھے صاف میزوں‘ ستھرے میزپوشوں اور گل دانوں والی میزوں پر سفید وردی والے بیرے کھانا لگایا کرتے تھے اور جی خوش ہوتا تھا وہ سب کہاں چلا گیا؟ سلیم خان صاحب بتانے لگے جی ہاں اس وقت یہ تھا کہ ڈائننگ کار ہوتی تھی‘ بیٹھنے کا انتظام ہوتا تھا اور اس میں ڈونگاڈش سروس ہوتی تھی اور مسافر جتنا کھانا لینا چاہے وہ لے سکتا تھا ہمارے دوچار آدمی اور ساتھ لگ جاتے تھے کوئی پسنجر کو سلاد دکھا رہا ہے کوئی چاول پاس کرارہا ہے کوئی سوپ پاس کرا رہاہے کوئی بریڈ بٹرپاس کرا رہا ہے کوئی رائتہ چٹنی دے رہا ہے‘ اب تو کچن کار لگے ہوئے ہیں اب تو یہ ہے کہ ایک عام کھانا جو ہم بناتے ہیں وہ مسافروں کو ہم کمپارٹمنٹ میں دیتے ہیں لیکن اگر کوئی مسافر ہمیں کہتا ہے کہ ہمیں دال کھانی ہے یا سبزی بنادیں یا بھجیا کھانی ہے یا ہمارے لئے کڑھائی کردیں یا چکن جال فریزی بنادیں یا ہمیں چکن کڑھائی بنادیں تو ہم کچھ وقت لےکر بنا دیتے ہیں جی ہاں‘ اب بھی بناتے ہیں اب میں نے سلیم خان صاحب سے پوچھا کہ یہ گاڑی میں سوار سارے ہی مسافر شکایت کیوں کرتے ہیں کہ کھانا مہنگا اور ناقص ہے؟ جواب ملا‘ اس کے متعلق توجی یہ ہے کہ اس میں مہنگائی کا بھی بڑا دخل ہے کیونکہ ہمارے جو نرخ ہیں وہ ویسے ہی جوں کے توں ہیں جوچار سال سے آٹھ سال سے چلے آرہے ہیں جب کہ مارکیٹ میں نرخ دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں جو چیزایک روپے کی ملتی تھی وہ پانچ روپے کی ملتی ہے چینی ہے‘ گھی ہے‘ مرغی ہے‘ انڈا ہے‘ ہر چیز مہنگی ہے لیکن ہمارے لئے جو نرخ مقرر کئے گئے تھے ہم ان کے پابند ہوتے ہیں ہمیں حکم ہے کہ اسی پرانے نرخ سے بیچیں۔ یہ تھے میری شالیمار ایکسپریس کے باورچی خانے کے نگران سلیم خان صاحب ‘ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ مسافروں کی جھوٹی پلیٹیں اور بچی کچھی روٹیوں کے ٹکڑے واپس آنے لگے‘ بیرے اپنی اپنی صافیاں سنبھالے اپنی کمائی کے نوٹ گننے لگے حساب کتاب ہونے لگا اور فضا ٹھنڈے سالن کی مہک سے بھرنے لگی تو میں بوفے کار سے نکل آیا‘ گاڑی کی رفتار سست پڑنے لگی اور میں نے باہر جھانک کر دیکھا تو صادق آباد کا اسٹیشن نظر آنے لگا‘ ٹرین وہاں سے آگے چلی تو دونوں جانب گلیاں‘ بازار اور مکان ساتھ ساتھ چلے اور وہ میدان بھی جس میں کہیں مجمع لگانے والے دوا فروش اپنے زور خطابت کا مظاہرہ کر رہے تھے‘ کہیں لڑکوں کی درجن بھرٹیمیں درجن بھر ٹیموں سے کرکٹ میچ کھیل رہی تھیں ٹرین کے اندر لگے ہوئے ٹیلی ویژن پر کوئی فلم چل رہی تھی اور ہیڈ فون والے سارے مسافر فلم کو بیک وقت دھیان سے دیکھ بھی رہے تھے اورسن بھی رہے تھے کہ اتنے میں ہماری گاڑی رحیم یارخاں کے نواح میں داخل ہونے لگی۔