امداد با ہمی

 
اپنی مدد آپ ہر شہری کی بنیا دی ذمہ داری ہے زند گی کے بہت سارے مسائل اس ذمہ داری سے حل ہو تے ہیں آپ کینڈا کے کسی بھی گاؤں اور شہر میں ایک سال گذار کر مشا ہدہ کرینگے تو یہ دیکھ کر سکون اور فرحت محسوس کرینگے کہ برف پڑ تی ہے تو ہر شخص اپنے گھر کے سامنے سے گذر نے والی سڑک سے برف کو صاف کر تا ہے، وہ میونسپلٹی کا انتظار نہیں کر تا، پت جھڑ کے مو سم میں درختوں کے خشک پتے گر تے ہیں تو ہر شخص اپنے گھر کے احا طے میں سڑک سے خشک پتے اٹھا لیتا ہے اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے سڑک صاف ہو جا تی ہے، یہ لو گ مزدور یا دہقان نہیں ہوتے، ڈاکٹر، انجینئر، فو جی آفیسر، سول آفیسر یا بڑے بڑے تا جر ہوتے ہیں‘ سرما یہ دار اور کار خا نہ دار ہو تے ہیں‘ سڑ ک کی صفا ئی اپنے ڈرائیور یا چو کیدار سے نہیں کر واتے خود بیلچہ یا جھا ڑو لیکر با ہر نکلتے ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھا تے ہیں جن قوموں نے ترقی کی ہے ان قو موں کی ایک مشترک خو بی یہ ہے کہ وہ حقوق نہیں ما نگتے ذمہ داریاں نبھا تے ہیں‘جب ہر شہری اپنی ذمہ دار ی نبھا تا ہے تو دوسرے شہری کا حق ادا ہوتا ہے‘حقوق کا جھگڑا ہی ختم ہو جا تا ہے‘ اسلا می تعلیمات میں ذمہ داری کو فریضہ کہا گیا ہے‘ ہر
 مسلمان کو اپنا فریضہ ادا کر نے کا حکم دیا گیا ہے، ہمارے سما جی نظام میں بھی امداد با ہمی یا اپنی مددآپ کے نا م سے اپنا فریضہ ادا کرنے کا با قاعدہ دستور مو جو د ہے مگر ہم نے اس دستور کو بھلا دیا ہے اس وجہ سے ہمارے نفسیات میں یہ بات راسخ ہو گئی ہے کہ میرے حصے کا کا م کوئی اور کرے گا ہم اجتما عی زند گی میں یہ سمجھتے ہیں کہ جب سب لو گ اپنا کام کر رہے ہیں تو میرے کام نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑ ے گا‘ اگر محلے میں 100شہریوں کے گھر ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہ خیال کر ے کہ میرے حصے کا کام میرا ہمسا یہ کرے گا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی بھی اپنے حصہ کا کام نہیں کرے گا‘ قدیم زما نے میں ایک باد شاہ اپنی رعا یا کے اس رویے سے تنگ ہوا تو ان کو سمجھا نے کے لئے دودھ کا تا لاب بنا نے کا اعلان کیا، جب تا لاب کو تعمیر کیا گیا تو باد شاہ نے حکم دیا کہ آج رات رعا یا میں ہر شخص اپنے گھر سے دودھ کا کٹو را لا ئے گا اور تا لا ب میں ڈالے گا، صبح ہوگی تو میں دودھ کے تا لاب کو دیکھنے آؤں گا، رات ہوئی تو ہر شخص نے سوچا کہ میں کٹورے میں پا نی لے جا ونگا، جب سب لو گ تا لا ب میں دودھ ڈالیں گے تو میرے پا نی کے کٹو رے کا پتہ ہی نہیں چلے گا، چنا نچہ رعا یا میں ہر ایک نے پا نی کا کٹورا لا یا اور تالا ب میں ڈالا، صبح کے وقت بادشاہ دودھ کے تالاب کو دیکھنے گیا تو وہاں پا نی کا تالاب تھا، اس نے رعایا سے کہا یہ تمہارا حال ہے تم میں سے ہر ایک نے سوچا کہ میرے سوا سب لو گ دودھ لائیں گے، کسی نے بھی دودھ نہیں لا یا اور تالاب پا نی سے بھر گیا اگر تم چاہتے ہو کہ تمہا را ملک خو شحا لی کی منزل کو پا لے تو اپنا فریضہ ایمانداری سے انجا م دو، دوسروں سے امید اور تو قع نہ رکھو، وطن عزیز پا کستان میں شہری حلقوں سے لیکر دیہات اور صحرائی بستیوں سے لیکر پہاڑی آبادیوں تک ہر جگہ عوام کے اندر فرائض کی ادائیگی کا بے پنا ہ جذبہ مو جود رہا ہے‘ جن شہر یوں نے 1950اور1960ء کی دہا ئیوں کا معا شرہ دیکھا ہے ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ہمارے
 آباء و اجداد اپنی نہریں خود تعمیر کر تے تھے‘ دریا اورندی نا لوں پر لکڑی کے پل بھی اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کر تے تھے، نہروں اور پلوں کی حفاظت اور مرمت کا کام بھی خود کر تے تھے ہر گھر سے مخصوص مقدار میں غلہ جمع کیا جاتا تھا جو ان کا موں کے لئے کاریگروں کے معا وضے میں دیا جا تا ہے‘پھر ایسا ہوا کہ کا غذ قلم آیا، لوگوں نے درخواست، سپا س نا مہ اور قرار داد لکھوا نا شروع کیا، گاؤں اور محلے کے چھوٹے مو ٹے کاموں کی ساری ذمہ داری حکومت یا خیراتی اداروں کے اوپر ڈال دی، کوڑا کر کٹ جمع ہوا، پا نی کا نلکا ٹو ٹ گیا، نہر سیلاب کی نذر ہو ئی یا پل سیلاب میں بہہ گیا، لو گوں نے درخواست لکھوائی، قرار داد جمع کروائی اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے، امداد باہمی اوراپنی مدد آپ کا ذکر آتا ہے تو لو گ کہتے ہیں ہم نے ووٹ دیا ہے‘یہ ہمارے نمائندوں کا کام ہے‘ اس فکر اور سوچ نے پسماندگی، غر بت، بے روز گاری اور جہا لت کو جنم دیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک بار پھر امداد با ہمی اور اپنی مدد آپ کے جذبے کو دوبارہ زند ہ کریں‘ہمارے دوتہائی شہری اور دیہی مسائل اس جذبے سے حل ہونگے۔