مجھے انگریزی بولنا نہیں آتی تھی


میری زندگی کا یہ پہلا موقع تھا کہ میں کسی دوسرے ملک اکیلے پڑھائی کرنے کے لئے جارہی تھی‘ میں بہت خوش تھی‘ اپنی ماں کو اپنے گھر میں بچوں کا خیال رکھنے کے لئے دیکھ کر میری چھوٹی موٹی فکریں بھی دور ہوچکی تھیں‘ مقررہ دن پر میں اسلام آباد ایئرپورٹ سے کراچی روانہ ہوگئی‘ کراچی سے مجھے سری لنکا کے لئے فلائٹ لی‘‘ کولمبو ایئرپورٹ پر جہاز لینڈ کر گیا اور یوں یہ میرا پہلا بیرون ملک سفر تھا میں تو امیگریشن کے مراحل سے بھی نابلد تھی اور میں اتنی بدحواس تھی کہ کس طرح ایئرپورٹ سے باہر جاؤں‘ یہ بدحواسی امیگریشن کے عملے کو میری طرف سے مشکوک کرگئی انہوں نے میرے سوٹ کیس کی مکمل تلاشی لی‘ انٹرویو کیا اور پھر تسلی کرکے مجھے باہر نکلنے دیا‘ بے شمار لوگ اپنے دوستوں‘ عزیزوں کو لینے ایئرپورٹ سے باہر کھڑے تھے اور میرے لئے یہ سب بالکل نیا تھا‘ اچانک میں نے اپنے نام کا ایک پلے کارڈ ایک آدمی کو اٹھائے ہوئے دیکھا اور میں نے اس کو اشارہ کیا کہ اس نام کی خاتون میں ہوں‘ وہ فوراً ہی میرے پاس آگیا‘ میرا ہینڈ کیری لے کر مجھے ایئرپورٹ سے باہر ایک وین میں لے جا کر بٹھا دیا‘ مجھے یاد ہے کچھ اور لوگ بھی اس وین میں موجود تھے اور وین ایئرپورٹ سے میرے ہوٹل کی طرف چل پڑی‘ جس ہوٹل میں میں نے قیام کرنا تھا وین کے شیشے کھلے ہوئے تھے‘ اگست کا مہینہ تھا اور سخت حبس تھی جس علاقے سے ہم گزر رہے تھے وہاں کسی پھل کی بدبو تھی جوپوری فضا میں پھیلی ہوئی تھی‘ میرا دل ایک دم ہی گھبرا گیا میرا دل چاہا میں دوڑ کر واپس اسلام آباد پہنچ جاؤں‘ یہ سب کچھ مجھے بہت ہی برا لگ رہا تھا‘ سڑک کے کنارے سکول کے بچے یونیفارم پہنے ہوئے اپنے سکولوں کی طرف جارہے تھے‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ کراچی ایئرپورٹ سے جہاز علی الصبح نکلا تھا اور صبح سات آٹھ بجے کولمبو ایئرپورٹ پہنچ گیا تھا‘ ڈرائیور بہت اچھی رفتار سے ہوٹل کی طرف روانہ تھا لیکن مجھے ہوٹل پہنچتے پہنچتے دو ڈھائی گھنٹے لگ گئے تھے‘ میرا ہوٹل گال روڈ پر تھا لیکن اس کا نام کیا تھا مجھے بالکل یاد نہیں‘ یہ چھوٹا سا ہوٹل تھا نارمل سے کمرے تھے اور شیئرڈ کمرے تھے‘ یعنی ہر کمرے میں 2 
لوگ رہیں گے‘ ہوٹل میں محترمہ مائل کورلے نے مجھے خوش آمدید کہا وہ براڈ کاسٹنگ کے اس کورس کی ڈائریکٹر اور ٹرینر تھیں‘ اس نے مجھے کہا کہ بہت جلدی سے تیار ہوجاؤں کہ اوپننگ سیشن شروع ہونے والا ہے‘ جب میں اپنے کمرے میں گئی اور کپڑے دیکھے تو کوئی کپڑا بھی استری شدہ نہیں تھا‘ نہ ہی میرے اپنے پاس استری موجود تھی‘ مجھے دیر ہورہی تھی میں نے بغیر استری کے مڑے تڑے ہوئے کپڑے پہنے‘ آپ سوچیں کہ کسی دوسرے ملک میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ بھی اوپننگ تقریب جس میں وزیر مشیر اور شہر کے معززین شامل ہوں‘ کس 
طرح میں شامل ہوئی ہوں گی‘ مجھے ایک لفظ انگریزی بولنی نہیں آتی تھی میں تو ساری زندگی اردو میڈیم سے پڑھائی کرکے آئی تھی اور ریڈیو پاکستان میں بھی کبھی انگریزی بولنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی‘ ہاں لکھنا آتا تھا‘ سمجھ بھی لیتی تھی لیکن یہاں آکر شدت سے انگریزی نہ بولنے پر احساس کمتری محسوس ہوا‘ اوپننگ تقریب کسی ہوٹل میں تھی جہاں میرے ساتھ تربیت کرنے والے بہت سے ساتھی موجود تھے‘ تربیتی سیشن شروع ہوا اور ہر شریک کار نے اپنا تعارف کروایا‘ پاکستان ٹیلی ویژن سے انجینئر کا نام اقبال یونس تھا‘ جن سے دوستی اور ایک بہترین تعلق آج تک بھی موجود ہے‘ بنگلہ دیش سے بھی ریڈیو بنگلہ کی خاتون فردوس تھیں جو میری روم میٹ بھی تھی‘ تربیتی کورس میں ہم صرف دو ہی خواتین ہیں‘ سری لنکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے تین چار لوگ تھے‘ ایک ہمارے کورس کوآرڈی نیٹر تھے جو سری لنکا کے ہی تھے اور ریڈیو سری لنکا 
سے ان کا تعلق تھا اور سری لنکا ریڈیو ٹیلی ویژن کے استاد تھے جو تربیت کے دوران ہمیں پڑھائیں گے میڈیم مائل کورلے تھیں جو اس تربیت میں ہماری ڈائریکٹر اور استاد بھی تھیں‘ تعارفی سیشن کے بعد ہمیں بریک دی گئی اور پہلی منزل پر ہی بنی ہوئی ایک کینٹین میں سٹول پر بیٹھ کر ایک کپ چائے اور ایک پیسٹری یا باسکٹ ہمیں دیا گیا اور یہ سلسلہ پورا مہینہ جاری رہا‘ سوائے اس ایک بات کے کہ مجھے انگریزی بولنا نہیں آتی تھی باقی تمام کام بالکل صحیح چل رہے تھے‘ کچھ دنوں بعد میں انگریزی بولنا شروع ہوگئی تھی بلکہ ملائیشیاء اور بنگلہ دیش کے دوستوں کے سامنے مجھے لگا میری انگریزی پھر بھی قدرے بہتر ہے‘ سری لنکن کے ساتھ تو ایسی اچھی انگلش بولتے تھے کہ حیرانگی ہوتی تھی ہاں البتہ آپس میں وہ اپنی زبان بولتے تھے جس کو سنہالی کہتے تھے اس زبان میں ٹ کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے‘ اقبال یونس کی انگریزی بہت اچھی تھی‘ ہم بڑی کامیابی سے اپنی تربیت مکمل کررہے تھے وقت کی ایسی پابندی تھی کہ صبح 8 بجے کلاس روم میں جاتے تھے‘ چائے اور لنچ کے وقفے کے بعد 5 بجے دن کو ہی باہر نکلنے تھے اور پھر ہوٹل چلے جاتے تھے ہمیں لانے اور لے جانے کی سہولت فری موجود تھی‘ انہی دنوں ایک تربیتی کورس کیمرہ مینوں کا بھی چل رہا تھا جس میں پاکستان کراچی ٹیلی ویژن سے محمود نام کے کیمرے مین شامل تھے بعد میں وہ اقبال یونس اور میرے ساتھ گھل مل گئے اور ہم تینوں کا گروپ اکٹھے رات کا کھانا کھانے نکلتا اور بازاروں کے چکر بھی چھٹی والے دن اکٹھے ہی لگتا‘ تربیت کا غالباً تیسرا یا چوتھا روز تھا کہ ہمیں لنچ کے لئے کولمبو کے ایک بڑے ہوٹل میں سرکاری طور پر لے جایا گیا اور شاید کسی وزیر یا مشیر نے ہمارے اعزاز میں لنچ دیا تھا‘ ہوٹل کئی منازل پر مشتمل تھا ہر کوئی اپنا اپنا کھانا اپنی پلیٹ میں خود لے رہا تھا اور اپنی میز کے سامنے بیٹھ جاتا تھا میرے لئے یہ سب بالکل نیا تھا‘ میں ایک پشاور جیسے چھوٹے سے شہر میں پیدا ہونے والی پلنے بڑھنے والی لڑکی جس کا ویژن اتنا نہیں تھا جتنی اچھی اس کی پوسٹ تھی‘ اسلام آباد میں بھی گھر اور دفتر کے علاوہ میرا کوئی ایکسپوژر نہیں تھا۔