مغربی ممالک میں بینکوں میں آنے والے اکاؤنٹ ہولڈرز کو نہایت تکریم دی جاتی ہے ایک شخص آنے والے کو پوری طرح ان کی تسلی ہونے تک اٹینڈ کرتا ہے یہاں تمام کام ای میل‘ آن لائن‘ ٹیلی فون اور کارڈز پر کیا جاتا ہے لیکن کبھی کبھار سال میں ایک آدھ دفعہ کسی اکاؤنٹ کے مسئلے مسائل کیلئے بنک جانا پڑ ہی جاتا ہے ہم دیسیوں کی ویسے بھی عادت ہوتی ہے کہ ذرا بینک جاکر خود بات چیت کی جائے پچپن سال کا یہ شخص سکھ تھا اس لئے وہ اپنی پگڑی سے پہچانا جارہا تھا اس کا نام پرتاب سنگھ تھا جو بینک میں کسی اہم پوسٹ پر تعینات تھا مغرب میں ہر قوم قبیلے کا فرد مل جاتا ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن یہاں زیادہ گھلنے ملنے کے رواج کم ہیں پرتاب سنگھ نے ہمیں بھی خوش آمدید کہا اور جلدی سے بینک سے تعلق رکھنے والا مسئلہ حل کردیا بات سے بات نکلی اور سکھ بھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں ذرا حیران ہوئی عینک کے پیچھے ذہین آنکھوں کے اندر موتیوں کی طرح چمکتے اتھرو اور وہ بھی سکھ جیسے انسان کی آنکھوں میں‘حیرانگی ہوئی انسان اوپر سے ہنستا ہوا اور اندر سے کیسے کیسے غموں کو پالتا ہوا نظر آتا ہے کسی ہمدرد کے چھیڑنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بس اندر سے غم قطار در قطار نکلتے ہوئے چلے آتے ہیں اس کی داستان غم بڑی عجیب تھی کہنے لگا میں ایک کامیاب بزنس مین تھا میرا کاروبار کئی ممالک میں پھیلا ہوا تھا اور میرا مقصد بھی ایشائی خاندانوں کی طرح اپنے بیوی بچوں اور اہل خانہ کو دنیا کی ہر سہولت دینا تھا بڑا گھر‘ بڑی بڑی گاڑیاں‘ مہمان نوازی‘ پارٹیاں‘ مغرب کے مہگنے ممالک میں تمام آسائشیں پوری کرنے کیلئے ہزاروں ڈالر چاہئے ہوتے ہیں کاروبار پھیلتا گیا اور میں مصروف ہوتا گیا نہ میرے پاس بیوی کیلئے وقت تھا نہ بچوں کیلئے‘ بچے جوان ہوگئے اور بہت خوش بھی‘ ان کے پاس اپنے ہم عمروں کو بتانے کیلئے زندگی کی سب آسانیاں موجود تھیں میری بیوی پہلے تو یہ سب کچھ حاصل کرکے بہت خوش تھی اس کی دوست سہیلیاں اور رشتہ دار اس کو دنیا کی خوش قسمت عورت تصور کرتی تھیں اور صحیح تھا مغرب میں نوکر رکھنا بہت بڑی آسائش کے زمرے میں آتا ہے اور ہمارے گھرمیں کئی لوگ ایسے سٹاف پر مشتمل تھے جو ہمارے خاندان کے ایک اشارے پر کام کرنے کیلئے بھاگتے دوڑتے تھے‘ میرے دل میں سوال آیا کہ اتنا امیر آدمی اتنا بڑا بزنس مین اور یہ بینک کی ایک عام سی نوکری‘ سکھ بھائی شاید میرے دل کے سوال کو جان گیا تھا کہنے لگا میری بیوی کا دل ان تمام دولت دنیا سے بھر گیا وہ میرے وسیع و عریض کاروبار سے اس لئے اکتا گئی کہ میرے لئے اس کے پاس بیٹھنے کا بھی وقت نہیں تھا مغرب میں عورتوں کے اتنے زیادہ حقوق ہیں کہ پاکستان یا پشاور میں رہنے والا کوئی شخص اس کو تصور میں بھی نہیں لاسکتا طلاق کے بعد بھی عورت اپنے خاوند کی دولت میں مرتے دم تک حصہ دار رہتی ہے وہ جو بھی کماتا ہے اس میں سے آدھا حصہ عورت کے بینک میں منتقل ہوتا رہتا ہے‘ سکھ عورت کو اپنے حقوق کا علم تھا‘ میاں بیوی کی ناچاقی اتنی بڑھی کہ کورٹ تک پہنچ گئی‘ عورت کا مؤقف تھا کہ وہ کئی سال سے گھر بار‘ بچے اور وہ تمام کام سنبھال رہی ہے جو میرے شوہر کو بھی برابری کی سطح پر میرے ساتھ سنبھالنے چاہئیں‘ جبکہ یہ کاروبار کو لے کر سال
میں کئی مہینے اپنی شکل ہی نہیں دکھاتا عدالت نے عجیب فیصلہ دیا پرتاپ سنگھ کو قصور وار ٹھہرایا اور اس کو سزاملی کہ وہ اپنا کاروبار آنے والے تین سالوں میں ختم کردے گا گھر بیٹھے گا اور بیوی کے وہ اعتراضات دور کرے گا جوعدالت میں دائر کئے گئے ہیں اس کے لئے جج نے ہاؤس مین کی سزا مقرر کی جس میں آنے والے برسوں میں وہ کپڑے دھوئے گا‘ برتن دھوئے گا‘ کھانا پکائے گا اور گھر کے وہ تمام ضروری کام کرے گا جو ایک عورت کرتی ہے فیصلے کے مطابق پرتاپ سنگھ کو اپنے چلتے ہوئے کاروبار کو خیرباد کہنا پڑا اس لئے کہ تین سال تک بغیر توجہ دینے کاروبار کیسے ہو سکتا ہے کاروبار ٹھپ ہو گیا پرتاپ تین سال تک گھرداری کی یہ مسز آف کئے بغیر نبھاتا رہا نوکر چاکر گاڑیاں سب ختم ہوتی چلی گئیں مغرب میں ہندوستان پاکستان کی عورت کو حقیر نہیں سمجھا جاتا جب پرتاپ سنگھ کی انا مجروح ہوئی تو لڑائی جھگڑا اور نفرت اتنی زیادہ ہوگئی کہ میاں بیوی کا رشتہ طلاق پر پہنچ گیا طلاق کی صورت میں پرتاب سنگھ کی نصف دولت خود بخود اس کی بیوی کو ٹرانسفر ہوگئی اس کی سزا کے تین سال پورے ہوگئے تھے کاروبار کے تباہ ہونے کے بعد اب وہ بینک کی نوکری کرتا ہے اور اپنی زندگی کے مہ و سال گزارتا ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آئے گا کہ بچے کہاں گئے یہاں مغرب میں ایسے معاملات میں بچے اتنے بگڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ ماں باپ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے اس کو بھی جرم سمجھا جاتا ہے آنسو آنکھوں میں ویسے ہی نہیں آجاتے جب دل کا شیشہ ٹوٹتا ہے اور اس کی کرچیاں دل میں پیوست ہوتی ہیں تو پھر عورت کیا مرد کی آنکھیں بھی اتھرؤں سے بھرجاتی ہیں۔۔