سرکی گیٹ کی نہر ‘راول جھیل اور بحرہند

سری لنکا میں تربیت حاصل کرنے کا میر ا تجربہ بعد کی میری پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کارگر ثابت ہوا سری لنکا میں زندگی میں پہلی دفعہ میں نے سمندر دیکھا اور دیکھتے ہی حیرت زدہ رہ گئی‘ میں نے تو راول جھیل اور سرکی گیٹ کی نہر کے علاوہ پانی کو بے کراں وسعتوں کے ساتھ پھیلا ہوا کبھی زندگی میں نہیں دیکھا تھا‘ ریڈیو ٹیلی ویژن کے لوگوں کیساتھ ملنا اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا بھی میرے لئے بہت حیرت انگیز اور مفیدتھا ہمارے پاکستان کے ہی ایک انجینئر ونگ کے فرد سرفراز عالم نعمانی سری لنکا کی اسی تربیت گاہ میں انسٹرکٹر تھے‘ ان سے ملنا اور انکے ساتھ سری لنکا میں وقت گزارنا بھی میرے تجربات میں اس طرح یادگار رہ گیا کہ ہمارے ملک کے کتنے ہی لائق قابل لوگ دوسرے ممالک میں پڑ ھانے کیلئے منتخب ہوتے ہیں ہفتہ اتوار تربیت سے ہماری چھٹی ہوتی تھی اور ہر ہفتے اتوار کو ہمارے کوآرڈی نیٹر ہمیں کولمبو کے علاوہ کوئی نہ کوئی شہر دکھانے کی منصوبہ بندی کر رکھتے تھے ہم نے ایک چھٹی کا دن سری لنکا کے ساحل دیکھنے میں گزارا اور زیادہ تروقت اکادوا ساحل پر گزارا جو سری لنکا کے ساحلوں میں مبرا حاصل شمار ہوتاتھا میں نے دیکھا ساحلوں کے کنارے پانچ چھ ستاروں والے ہوٹل انگریزوں سے بھرے ہوئے ہیں سری لنکا اپنے گرم ساحلوں کی وجہ سے مغرب میں بڑا مشہور ہے‘ ہوٹلوں کی لابیوں سے اتر کر مغرب کے لوگ ساحل سمندر کی ریت پر لیٹے ہوئے ہوتے ہیں اور پانیوں میں تیراکی کرتے ہیں‘ سری لنکا کی ٹورازم کی آمدنی لاکھوں ڈالر ہے جو اس کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے‘ ہماری کلاس کئی مقامی دستکاریوں کے فنون دیکھنے بھی لے جائی گئی سری لنکا کولمبو میں پہلی مرتبہ میں نے خواتین دیکھیں جو بڑے بڑے اسٹورز میں اشیاءکی فروخت کی ذمہ دار تھیں‘ اس سے پہلے پاکستان میں اس طرح کی بات میں نے نہیں دیکھی تھی سری لنکا اپنے قیمتی پتھروں کیلئے مشہور ہے خاص طورپر سفائر(Saphire) بہت خوبصورت ہوتے ہیں میں خود پتھروں کی بڑی شوقین ہوں میں نے بے شمار سفائر خریدے‘ لیکن افسوس کہ میں نے اپنے لئے ایک سفائر بھی سنبھال کر نہیں رکھا اور سب کے سب دوستوں رشتہ داروں کو دے دیئے‘ تربیت کے دوران میں نے پہلی دفعہ کمپیوٹر دیکھا ‘ہماری کلاس کو کمپیوٹر سیکھنے کی تربیت دی گئی ‘پاکستان میں کمپیوٹر کا نام میں نے نہیں سنا تھا اور سری لنکا اتنا ترقی کر چکا تھا کہ بہت کام کمپیوٹر کے ذریعے کرتا تھا‘ تربیت کے مراحل اتنے جاندار اور حیران کن تھے کہ بہت کچھ سیکھنے کو ملا جیسے انسان اندر سے علم و کمال سے مالامال ہو جاتا ہے میرا بھی ایسا ہی حال تھا‘ ایک ویک اینڈ پر ہمیں سری لنکا کے گال فورٹ لے جایا گیا جہاں سمندر کے کنارے قلعے بنے ہوئے تھے‘یہ کولمبو سے بہت دور دراز علاقہ تھا یہاں بے شمار نئے شادی شدہ لوگ پکنک وغیرہ منانے آئے ہوتے تھے اور بہت نمایاں لگ رہے تھے تربیت کے دوران ہم دوپہر کا کھانا وہیں کینٹین میں کھاتے ہم سب کو چار سو روپے سری لنکا کرنسی ملا کرتی تھی سری لنکا کی کرنسی بھی روپیہ کہلاتی ہے ان دنوں کافی سستا زمانہ تھا اور400 روپے ہمارے لئے اتنے زیادہ تھے کہ ہم لوگ اس میں شاپنگ بھی کرتے تھے کولمبو میں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر کھانا حلال نہیں ہوتا میرے ساتھی سمجھ دار تھے وہ حلال دوکانیں ڈھونڈتے تھے اگر چہ سری لنکا میں مسلمان موجود ہیں لیکن بہت تھوڑی تعداد میں ہیں‘ ہم نے ڈھونڈڈھانڈ کر ایک ریستوران نکال لیا جو مسلمان تھے اور نام بھی ان کا سلامت ریستوران تھا وہ50 روپے میں ایک بہت بڑی پلیٹ چاولوں کی بھر کے مرغی کا ٹکڑا اور ایک ابلا ہوا انڈہ اس کے اوپر رکھ کے دیتے تھے وہ ایسا بھرپور ذائقہ دار اور صحت مند کھانا ہوتا تھاکہ ہم چار پانچ جتنے بھی مسلمان تھے بہت شوق اور رغبت سے کھاتے تھے ہماری ڈائریکٹر میڈم مائل کو رلے‘ تھیں تو سری لنکن لیکن رہتی تھیں ملائشیا کوالالمپور میں کیونکہ اے آئی بی ڈی(AIBD) کا صدر دفتر ملائشیا میں ہے‘ ان دنوں کرکٹ میچ چل رہے تھے اور اس کا بیٹا ملائشیا سے ماں کو فون کرکے سکور پوچھا کرتا تھا ‘سیل فون تو نہیں تھے لینڈ لائن ٹیلی فون ہوتے تھے اور وہ اس بات کو بہت خوشی سے بتاتی تھی کہ میرا بیٹا کرکٹ کا کتنا دیوانہ ہے میں اپنے گھر پبلک بوتھ سے کارڈ کے ذریعے ٹیلی فون کیا کرتی تھی میری ماں اور میرے بچے بالکل ٹھیک تھے یا میری ماں مجھے تسلی دینے کیلئے سب اچھا اچھا بتاتی تھی اب سوچتی ہوں ایک مہینہ بہت لمبا وقت ہوتاہے میں نے کس طرح بچوں کے بغیر کولمبو آنا پسند کیا اور اتنا بڑا دل کیا کہ ان کے بغیر رہوں ‘اقبال یونس اور دوسرے ساتھی میرا اور فردوس کا بہت خیال رکھتے تھے ایک ویک اینڈ پر ہمارا ٹورکینیڈی کا تھا سری لنکا کے مشہور ترین شہروں میں ایک شہر کینیڈی ہے جو پہاڑی علاقہ ہے ہمارے ایک سری لنکن ساتھی ٹیگاس نے اس سیر کی منصوبہ بندی کی تھی‘ اب سوچتی ہوں تو خود حیران رہ جاتی ہوں کہ اس نے باقاعدہ نقشے کی مدد سے کینیڈی کا روڈ میپ بنایا تھا ہم نے کہاں ٹھہرنا ہے کیا دیکھنا ہے کیا کھانا ہے‘ کتنے بجے کینیڈی پہنچنا ہے وہاں ایک رات قیام کرنا ہے اور ساری تفصیل ہر ایک کے ہاتھ میں تھما دی میگاس کی ذمہ داری اور منصوبہ سازی کی آج بھی قائل ہوں کینیڈی کا راستہ حسین و سرسبز ہے راستے میں ان کے سب سے بڑے باغات کو دیکھنے کاموقع ملا جن کے نام پر سہارا گارڈنز تھا وہاں ایک بڑھ کا درخت400 سال پرانا تھا اس درخت کی جڑیں کلومیٹرز تک پھیلی ہوئی تھیں اسی گارڈن میں پاکستانی ایمبسی کے فرسٹ سیکرٹری اور ان کی بیگم سے ملاقات ہوئی ‘ اس طرح سارا راستہ چائے کے باغات‘ الائچیوں کے باغات دیکھنے کاموقع ملا‘ خوشبوﺅں بھرا راستہ ہمیشہ یادوں میں رہتا ہے میرے لئے تو یہ سب ایک انوکھا اور حسین تجربہ تھا میں نے سوائے پشاور اور پنڈی اسلام آباد کے تیسرا شہر بھی نہیں دیکھا تھا سری لنکا کی ہر ہر بات سے نہ صرف میں سیکھ رہی تھی میرے خیالات میں بھی بے پناہ وسعت پیدا ہورہی تھی کہتے ہیں سفر انسان کو مشاہدات اور تجربات کے نئے جہاں دکھاتا ہے میں انہی لمحات سے گزر رہی تھی جب ہم کینیڈی پہنچے تو موسم خوبصورت تھا کیونکہ یہ ایک پہاڑی علاقہ تھا کینیڈی میں کرکٹ کا بہت بڑا سٹیڈیم ہے اور انٹرنیشنل میچز یہاں ہوتے ہیں پہاڑ پر بہت ہی بڑا بدھا کا مجسمہ میری یادوں میں ہمیشہ رہتا ہے جو روشن تھا اوردور دور سے نظر آتاتھا اور سیاحوں کو حیران بھی کرتا تھا اگست کے مہینے میں اور خاص طور پر ایک ویک اینڈ میں کینیڈی آنے کا مقصد یہ تھاکہ اس دن کینیڈی میں ہاتھیوں کا بہت بڑا میلہ ہوتا ہے اور ہماری کلاس کو یہ میلہ دکھانا مقصود تھا میں نے سینکڑوں ہاتھیوں کو پہلی مرتبہ کینیڈی میں دیکھا‘ ہاتھی اتنا بڑا جانور ہے کہ ہاتھ لگا کر دیکھا جبکہ اسکی دیکھ بھال کرنے والا شخص اس کے ساتھ تھا ہمارے کئی ساتھیوں نے ہاتھیوں کی سواری کی لیکن ان کا تجربہ اس بارے میں بڑا مشکل اور سخت تھا جس شام کو ہم کینیڈی پہنچے تھے اس شام کو ہم نے سری لنکا کا300 سال کا پرانا ٹیمپل دیکھنا تھا ایک بہت ہی لمبی قطار تھی جو اس ٹیمپل کو دیکھنے کیلئے کھڑی تھی میں نے ادب آداب کو ملاحظہ کرتے ہوئے اچھی طرح سر پر دوپٹہ اوڑھ لیا تھا جب میری باری اندر جانے کی آئی تو گارڈ نے میرے سر سے دوپٹہ ہٹا دیا بعدمیں پتہ چلاکہ بدھست کی عبادت گاہوں میں ننگے سرجایا جاتا ہے۔