کینیڈا کا رمضان اور دیسی دکانیں

کینیڈا میں سب سے بڑی رویت ہلال کمیٹی نارتھ امریکن رویت ہلال کمیٹی ہے سارا نارتھ امریکہ ان کی رویت پر بھروسہ کرتا ہے نارتھ امریکہ میں کینیڈا کے بہت سارے علاقے اور امریکہ کی کئی ریاستیں شامل ہیں اس دفعہ انتاریو کی کئی مساجد اور نارتھ امریکن رویت ہلال کمیٹی کے بڑے اجلاس ہوئے لیکن اتوار کی رات چاند نظر نہیں آیا اس لئے کینیڈا کی زیادہ تر مسلمان آبادی نے پہلا روز منگل کو رکھا اگرچہ ایک محدود آبادی نے اپنا روزہ پیر سے بھی شروع کیا پاکستان کی طرح کینیڈا میں بھی رمضان کا استقبال بہت ہی جوش اور جذبے سے کیا جاتا ہے جب آج سے24 سال پہلے میں کینیڈا آئی تھی تو نہ رویت ہلال کمیٹی کا وجود تھا اور نہ ہی پاکستانی اشیاءفروخت کرنے والی دکانیں تھیں‘ نہ روح افزاءتھا نہ کھجور کے پیکٹ ڈبوں میں بند‘ انگریزی حلال اشیاءسے روزہ افطاری کی تیاری کی جاتی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات اور واقعات میں اتنی تیزی سے فرق پڑا کہ نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کے لوگ امیگریشن لے کر آئے بلکہ اپنے ساتھ کئی ایسے کاروبار بھی لے آئے کہ جن کا تعلق اپنے پاکستان سے ہے صرف پاکستان ہی نہیں سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ ہندوستان اور خاص طور پر افغانستان کے وسیع تعداد میں امیگریشن سے ان ممالک کی اشیاءکی بھی بہتات ہوگئی ہے اور ان میں سے ہر ملک کی ایسی دکانیں کثرت سے موجود ہیں جن پر ان ممالک کے لوگوں کی وہ ضروریات پوری ہوتی ہیں جو خالصتاً کھانے سے متعلق ہیں‘ پاکستان کی دیسی دکانوں میں تو وہ اشیاءفروخت ہوتی ہیں جو کبھی سوچ میں بھی نہیں آسکتیں جن کو خریدنے کیلئے پاکستان کے شہروں میں بھی لوگ دور دراز بازاروں کا رخ کرتے ہیں یہاں ایک ہی چھت تلے یہاں کے پاکستانیوں کو سب کچھ مل جاتا ہے‘ اور بڑے فخر سے کہا جاتا ہے پاکستان کے ٹماٹر‘ پاکستان کی بھنڈی‘ گوبھی وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ بھئی آپ نے پاکستان کی سبز مرچیں اور ملائی ہی خریدنی تھی تو کینیڈا کیوں آگئے وہی بیٹھ کر اپنے ذائقے پورے کرنے تھے‘ لیکن بہرحال حلال گوشت لینے کیلئے پاکستانی یا عربی دکانوں پر جانا ضروری ہوجاتا ہے‘ انسان کسی حال میں خوش نہیں ہوتا یہ مضمون تو مولانا محمد حسین آزاد نے لکھا تھا لیکن یہاں کینیڈا میں اس سبق کی یاد مجھے بارہا آتی ہے جو میں نے دسویں کلاس کی اردو کی کتاب میں پڑھا تھا شاید ابھی بھی وہی کتاب سکولوں میں اسی درجے میں پڑھائی جاتی ہوگی اورپھر یہ اسباق تو ادب کے شاہکار ہیں کہ ہر زمانے پر فٹ آتے ہیں رمضان کے مہینے میں یہاں دیسی دکانوں پر رش ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو اپنے دسترخوان پر شربت سے لے کر سالن تک پاکستان کے رنگ میں رنگا ہوا چاہئے ہوتا ہے تخم ملنگا بھی یہاں ملتا ہے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے چلو ہم خود کفیل ہوگئے ہیں‘ رہتے تو مغرب میں ہیں لیکن مشرق کی چاشنیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں پھر ان دکانوں پر جانے کا ایک فائدہ اور بھی ہے ہر قسم کے پاکستانی فرد سے ملاقات ہو جاتی ہے ملاقات کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ بات چیت ہوتی ہے ایک دوسرے کا فون نمبر لیا جاتا ہے ملاقات کا مطلب ہے کہ وہ ہم کو دیکھ لیتے ہیں اور ہم ان کو دیکھ لیتے ہیں اور پھر کنی کترانے والے محاورے کے عین مطابق ایک دوسرے سے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں سلام کرنا تو بہت محبت کے زمرے میں آتا ہے اگر کوئی ایسا کرلے تو بڑی حیرانگی ہوتی ہے کہ اس نے خود سے سلام کرلیا ہے ورنہ ایسا عموماً نہیں ہوتا‘ دیسی دکانوں پر اشیاءانگریزی دکانوں کی نسبت دگنے ڈالرز میں ملتی ہیں‘ بعض اشیاءتو ایسی ہیں کہ پاکستانی دکاندار انگریزی ہول سیلرز سے سستے ترین داموں میں لیتے ہیں جیسے پانی‘ دودھ‘ چینی‘ آٹا وغیرہ وغیرہ‘ اور اپنی دکانوں پر رکھ کر ان سے دگنی قیمت وصول کرتے ہیں اور یہ ہماری نفسیاتی مجبوری ہے کہ رمضان میں ہم نے اشیاءکو مہنگا فروخت کرنا ہے چاہے ہم کینیڈا میں ہی کیوںنہ ہوں‘ حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستانی دکانداروں نے اپنے مزدور یا کام کرنے والے دوسری قومیتوں سے بھرتی کئے ہوئے ہیں جیسے عموماً سکھ لڑکیاں پاکستانی دکانوں پر کام کرتی ہےں ایک دفعہ میں نے پوچھ ہی لیا کہ اپنی پاکستانی برادری کو نوکری پر کیوں نہیں رکھتے اور اس کا جواب یہ تھا کہ وہ ان کے قابو نہیں آتے کام ٹھیک سے نہیں کرتے محاورتاً آپ کہہ سکتے ہیں کام کے سلسلے میں ڈنڈی مارتے ہیں کینیڈا اب 24 سال پہلے والا کینیڈا نہیں رہا اب ہر شہر میں دنیا کی ایک ایک کمیونٹی نے اب ڈیرے بنالئے ہیں اور ان کے شہر ان کے حساب سے بن چکے ہیں۔