رمضان میں بے جا منافع کمانے والے

رمضان کے مہینے میں افطا ریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے وہ افطاریاں تو دل کو خوشی مہیا کرتی ہیں جو غریبوں کیلئے سجائی جاتی ہیں نادار‘ بے گھر‘ مسافر اور بے آسرا لوگ جو صرف پانی روٹی اور سالن کو بھی اعلیٰ ترین خوراک سمجھتے ہیں اور کسی امیر کی جانب سے دی گئی افطاری ان کیلئے ہزار نعمتوں سے بڑھ کر ہوتی ہے لیکن کچھ افطاریاں وہ ہوتی ہیں جو امیر اور صاحب حیثیت لوگ اپنے امیر ترین دوستوں اور رشتہ داروں کیلئے سجاتے ہیں اگرچہ معاشروں کیلئے یہ بیٹھک بھی نہایت ہی ضروری اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن ایسی افطاری پر بے پناہ روپیہ پیسہ لٹایا جاتا ہے اس کے بعد مہمان پلیٹیں بھر بھر کر کھانے کیلئے اٹھاتے ہیں جن کو وہ آدھا بھی نہیں کھا سکتے اور باقی کا آدھا کھانا ڈسٹ بن کی نظر ہو جاتا ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ افطاریاں ضرور کروانی چاہئیں جن کو خدا نے نعمتوں سے نوازا ہے ان کو ضرور استعمال کرنا چاہئے لیکن اگر سادگی کو خدا کا حکم سمجھ کر بجالائیں تو کتنا ہی کھانا اور اناج بچ جائے جو رب کے دوسرے بندوں کے کام آجائے مغربی ممالک میں کھانے نہایت سادہ ہوتے ہیں اور صحت کا خیال رکھا جاتا ہے گھی میں لتڑی ہوئی اشیاءکا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے صحت مند غذا اورکم غذا کھانے کو بہترین صحت اور بیماریوں سے دور سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہے بھی کہ کم کھانا سنت رسول ہے اس کے برعکس ہمارے دسترخوان ایسے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جن کو ہمارا جسم قبول تو کر لیتا ہے لیکن ساتھ ہی کئی قسم کے صحت کے مسائل بھی ہمیں تحفتاً دینا نہیں بھولتے مغرب میں شاذو نادر ہی ایسا کوئی مرد یا عورت دکھائی دے جس کے جسم کا کوئی عضو ڈھلکا ہوا ہو یا اپنے اصلی حجم سے زیادہ ہو اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا اتنا ہی کھانا ہے جتنی جسم کی ضرورت ہے اگر ہم اپنی افطار پارٹیوں میں اس لئے سادگی اختیار کریں کہ رب کی خوشنودی حاصل ہو صحت مندی حاصل ہو اور ہماری نعمتوں میں غریبوں کا حصہ بھی شامل ہو جائے تو یہ کتنا ہی اجر ہمیں نہ صرف دنیا میں ملتا ہے بلکہ آخرت میں ہم رب کے خاص لوگوں میں شامل ہونگے میں رمضان میں افطاری کی دعوت کبھی بھی قبول نہیں کرتی روزہ افطار کے بعد صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اپنے گھر کے علاوہ کسی ہوٹل یا کسی اور گھر میں بیٹھا جا سکے‘ لیکن جو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے وہ بہت ناقابل قبول ہوتا ہے رب کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے حد سے زیادہ اخراجات اور اناج کو فراوانی سے ضائع کرنا رب تعالیٰ کو ناپسند ہے‘ اور حد سے زیادہ منافع کمانا بھی رب کی کھلی پکڑ کو دعوت دیتا ہے‘ منافع اتنا کمائیں جو جائز ہے اور آپ کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے ایسا منافع نہیں کہ آپ کی اس دکان میں رکھی ہوئی اشیاءکو کہ جن کی روزہ رکھنے والوں کو اشد ضرورت بھی ہے حسرت اوریاس سے اس لئے دیکھیں کہ آپ منافع کمانے کے بادشاہ بن بیٹھے ہیں اور ان کی جیب آپ کی ناروا قیمتوںکو برداشت نہیں کر سکتی رب کا فرمان ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘ کیا آپ اس برکتوں اور رب کی عنایتوں کی خوشبوﺅں والے مہینے میں اپنی اشیاءکو سستا نہیں کر سکتے ؟کیا رب کے راضی ہو جانے سے بھی زیادہ کوئی نعمت ہو سکتی ہے ؟آخر ایک دن ہمارا اس دنیا سے جانے کا آنے والا ہے اورپھر حساب کتاب کا دن بڑا کٹھن ہوگا ویسے تو رمضان کے مہینے میں ہر وہ ضرورت کی شے جو روزہ کھولنے یا بند کرنے میں ضروری ہے خوراک کے طور پر اولین سمجھی جاتی ہے خود بہ خود مہنگائی و الے خانے میں چلی جاتی ہے جہاں صرف موٹے موٹے شیشے لگے ہوتے ہیں انسان لاچاری سے صرف دور سے ہی دیکھ سکتا ہے اور ہاتھ لگانے کا مطلب ہے کرنسی‘ روپیہ جو اس بے تحاشہ مہنگائی میں اب مشکل ترین ہوگیا ہے نہ جانے ایسی مہنگائی کا طوفان رمضان میں ہی کیوں آجاتا ہے لیکن یہ آسان جواب لکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے خواہشات لاتعداد ہوتی ہیں اس پر کسی کا بس نہیں ہوتا اور ان خواہشوں میں ایک خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ کاش کچھ تو سستا ہو کہ غریب اور سفید پوش انسان اور اپنے بچوں کو کچھ پھل کھلا سکیں اچھا کھانا پکا سکیں اور خوشحالی سے نہ سہی سادگی اور اطمینان سے زندگی گزار سکیں یہ افسوس ایسا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہمارے معاشروں میں بہت سی اکائیوں کی بگاڑ خود بہ خود شروع ہوگئی ہے اور اس بگاڑ کا اثر براہ راست عام طبقے تک پہنچتا ہے۔