نریندر مودی کا انڈیا

 انڈیا میں انیس اپریل کو شروع ہونیوالے انتخابات چھ ہفتے تک جاری رہنے کے بعد چار جون کو اختتام پذیر ہونگے۔ انتخابات جس ملک میں بھی ہوں وہ پراسراریت کی دھند میں لپٹے ہوتے ہیں۔انتخابی عمل مغرب کے خوشحال جمہوری ممالک میں ہو یا جمہوریت کے تجربے کرنے والے پسماندہ ممالک میں‘ فتح اور شکست کا پتہ نتائج آنے کے بعد ہی چلتا ہے۔ تناؤاور ٹکراؤکی ڈرامائی کیفیت آخردم تک برقرار رہتی ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی پتہ چل جائے کہ فاتح کون ہو گا۔ انڈیا کے حالیہ انتخابات اس اعتبار سے حیران کن ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی فتح میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس الیکشن کی دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ نریندر مودی نے بیس کروڑ لوگوں کی اقلیت کو ایک ایسا”خارجی گروہ“قرار دیا ہے جو انڈیا کی اکثریتی ہندو آبادی کی دولت کو لوٹنا چاہتا ہے۔ اتوار اکیس اپریل کو ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے مسلمانوں کے رہن سہن اورطور طریقو ں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ دس برس تک انڈیا کے وزیر اعظم رہنے والے شخص کی مسلمانوں سے نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر انتخابات کے دوران ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو اس طرح سے دھتکار دینے کا مطلب یہی ہے کہ اسے انکے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مودی کی یہ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری ایک طرف اسکے تعصب اور انتقام پر مبنی سیاست کا پتہ دیتی ہے تو دوسری طرف اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا مطلق العنان لیڈر ہے جو نہ صرف ریاستی اداروں پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے بلکہ اسے مخالف سیاسی جماعتوں کی تنقید کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ انڈیا کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں اپنی اندرونی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے اتنی کمزور ہو چکی ہیں کہ وہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتیں۔ بی جے پی میں شمولیت سے پہلے نریندر مودی ایک طویل عرصے تک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ممبر رہا تھا۔ دائیں بازو کی یہ انتہا پسند جماعت 1925 میں اس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی کہ وہ ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنائے گی۔ یہ گروہ تقسیم ہند کی حمایت کرنے والے لوگوں کو دھرتی ماتا کا غدارسمجھتا ہے۔ یہ اقلیتوں کے حقوق پر بھی یقین نہیں رکھتا اور ایک ایسی ہندو ریاست قائم کرنا چاہتا ہے جس میں ہندوؤں کو تمام اقلیتوں پر برتری حاصل ہو۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(RSS)جمہوریت کی مخالفت تو نہیں کرتی مگر سیکو لر ازم اور دوسرے مذاہب کے بارے میں اس حد تک متعصب ہے کہ اسکے ایک ممبر نتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948ء کو نئی دہلی کے برلا ہاؤس میں مہاتما گاندھی کو دن دھاڑے قتل کر دیا تھا۔ آر ایس ایس گاندھی کو ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار سمجھنے کے علاوہ اس پراقلیتوں کی طرفداری کا الزام بھی لگاتی ہے۔ اس ہندو قوم پرستی کی وجہ سے 1992ء میں ایودھیاکے مقام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ یہ مسجد سولہویں صدی میں بنائی گئی تھی۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا وعدہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بتیس برس قبل کیا تھا۔ ایودھیا کے اس تاریخی مقام پر قبضے کا مقدمہ طویل عرصے تک عدالتوں میں چلتا رہا۔ نریندر مودی اسی تنازعے میں ہندو قوم پرستی کے رتھ پر سوار ہو کر انڈیا کی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ انڈیا کا قوم پرست وزیر اعظم جب برطانیہ اور امریکہ کے دورے کرتا ہے تو وہ ایک ایسا جمہوریت پسند بن جاتا ہے جو انسانی حقوق پر یقین رکھنے کے علاوہ تمام مذاہب کو یکساں اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ مودی کی اس اداکاری پر مغربی حکومتیں اس لئے یقین کر لیتی ہیں کہ وہ انڈیا کے تعاون کے بغیر چین کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔اسی وجہ سے واشنگٹن اور لندن کے حکمران انڈیا میں اقلیتوں کی حالت زار سے واقفیت رکھنے کے باوجود نریندر مودی کی منافقت اور مکاری سے صرف نظر کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ملک میں حکومت کے سیاسی مخالفین‘ میڈیا اور اقلیتوں کا جو حال ہے اسے ایک دنیا جانتی ہے۔ انڈیا کی دو ایسی ریاستیں جن میں حزب اختلاف کی حکومت ہے‘کے چیف منسٹر زجیل میں ہیں۔ انڈین نیشنل کانگرس جو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے کے بینک اکاؤنٹس منجمد کئے جا چکے ہیں۔ میڈیا مکمل طور پر حکومت کے قبضے میں ہے اور حکمران جماعت پر تنقید کرنے والے صحافی یا تو جیل میں ہیں اور یا وہ عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کے مطابق نریندر مودی کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ اسی کروڑ لوگ ویلفیئر پروگرام کے تحت ملنے والے راشن پر گذارہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ مودی کو اس لئے بھی پسند کرتے ہیں کہ وہ ہندو مذہب کی برتری پر یقین رکھتا ہے۔ اسی نظریے  پر عمل کرتے ہوئے اس نے 2019ء  میں کشمیر کی آزادانہ حیثیت کو ختم کرکے اسے وفاق کا حصہ بنا لیا تھا۔اس انتہا پسند اور نفرت آمیز سیاست کی وجہ سے مودی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ حاصل کر تولے گا مگر بیس کروڑ مسلمانوں کے غم و غصے کے علاوہ اسے عالمی برادری کے تحفظات کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔