کہتے ہیں جہاں پر کھیل کے میدان آباد ہوں وہاں ہسپتال ویران ہونگے لیکن میدانوں یا گراؤنڈز کیلئے جب زمین نہ ہو یا کوئی اسے غیر ضروری سمجھ کر اپنے کسی دوسرے مفاد کیلئے کام میں لانے کا سوچے تو پھر کیا ہوگا؟ سنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سکول کالج اور یونیورسٹیاں فلیٹس میں بھی قائم ہیں۔ہاں ہوں گی‘ مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کا تعلیمی بجٹ کتنا اور ان کا معیار تعلیم و تحقیق کیا ہے؟ ان ممالک میں تو ایسی جامعات بھی ہیں جن کا سالانہ بجٹ ہمارے پورے ملک کے بجٹ کے اگر برابر نہ ہو تو صوبائی بجٹ سے تو ضرور زیادہ ہوگا‘ یہ وہ درسگاہیں ہیں جو انہی کی کارکردگی کی بدولت ان کی اقوام دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں‘ ہم نے تو پہلے پرائیویٹ بی اے‘ ایم اے اور اس کے بعد دو سالہ فاصلاتی نظام تعلیم کو خیرباد کہتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کی دیکھا دیکھی بی ایس چارسالہ پروگرام لاکر غریبوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے اور ساتھ ہی تعلیمی بجٹ کو بڑھانے کی بجائے گھٹا گھٹا کر اس حد تک لے آئے کہ اب صوبے کی ہر پرانی یونیورسٹی کے ملازمین سال میں کم از کم دو مرتبہ تالہ بندی کرکے تنخواہوں کیلئے سڑک پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں‘ ایسے میں بھی ہم یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ تعلیم ہماری اولین ترجیح ہے؟ مگر اس ترجیح کانتیجہ کیا ہے؟ ہم طبیعاتی‘ کمیائی‘ جنیاتی‘ زراعتی‘ ماحولیاتی اور خلائی تحقیق اور تربیتی معیار میں کہاں تک پہنچ گئے ہیں؟ اس کا درست جواب یہ ہے کہ ہم عروج کی ان حدود سے کوسوں دور اور سیاسی اور معاشی پسماندگی‘ انتہا پسندی‘فرقہ پرستی اور دہشت گردی کا شکار ہیں‘ کوئی یہ نہ مانے مگر یہ ایک اٹل اور مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک تعلیم و تربیت‘ تحقیق اور عصری علوم کی ترقی کو حقیقی معنوں میں ترجیح نہ دی جائے تب تک زندگی کے ہر پہلو ہر معاملے اور ہر ڈگر پر پسماندہ‘ محتاج اور غیروں کی خود غرضانہ بیساکھیوں پر کھڑے ہونگے ہماری تعلیم عصری تقاضوں پر پوری اترنے سے کیوں قاصر ہے؟ تعلیم کے میدان میں دوسروں سے کیوں پیچھے ہیں؟ ہماری تعلیم ریاستی ترجیحات سے کیوں باہر ہے؟ ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہ تعلیم ہماری سیاسی قیادت کامسئلہ نہیں ورنہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پر قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں‘سال میں چار موسم آتے ہیں اور ملک کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ اگر تعلیم ترجیح ہوتی تو غیروں کے70ہزار ارب روپے مقروض ہونے کی بجائے ترقی یافتہ اور خود کفیل اقوام کی صف میں کھڑا ہونے کے اہل اور حامل ہوتے‘ ہم نے تعلیم کو زندہ درگور کر دیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی پانچ ہزار یونیورسٹیوں میں کہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں اور اب تو یہ حالت مزید گھمبیر ہونے کی جانب گامزن نظرآتی ہے کیونکہ سنا ہے کہ صاحب اختیار حلقوں نے جامعات کی اراضی کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اس کو بیچنے کی ٹھان لی ہے‘ اگر یہ سچ ہو تو بلاشبہ یہ تعلیم کا ایک بڑا المیہ ہوگا‘ تعلیم کے بہی خواہ حلقوں کے نزدیک تو اس کی بجائے تعلیمی بجٹ بڑھانا اور جامعات کے اخراجات کا کڑا احتساب ہونا چاہئے‘ سیاسی دخل اندازی سے ہاتھ کھینچ کر جامعات کے اندر حقیقی تعلیمی ماحول کے تحفظ‘بازاری پن کے خاتمے اور طلباء بالخصوص نادار طلباء کو سہولیات اور مواقع کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی‘ بصورت دیگر تعلیم کی پسماندگی کی بدولت ہر طرح کی محرومی ہمارا مقدر رہے گی‘ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہماری تعلیم اور ہماری جامعات کی حالت بڑی تیزی سے تنزل اور گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے کیونکہ مقتدر حلقوں نے اسے یکسر نظر انداز کر رکھا ہے ان سطور کے لکھنے تک ہماری چند پرانی جامعات کے ملازمین جولائی کی تنخواہوں سے جبکہ ریٹائرڈ پنشن سے محروم تھے صاحب اختیار ذرا پلٹ کر دیکھیں کہ دنیا کی جامعات میں ہماری یونیورسٹیاں کونسی لائن میں کھڑی ہیں؟ میرا اندازہ تو یہ ہے کہ کہیں بھی کھڑی نہیں ہوں گی بلکہ پڑی ہوئی ضرور نظر آئیں گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
انتظامی غفلت کا تسلسل
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
جامعہ کا مخدوش حال‘غیر واضح مستقبل
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
جامعہ پشاور کے پی ایچ ڈی لیکچرارز
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
یونیورسٹی کیمپس‘ اصلاح احوال‘ کڑی آزمائش
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
یہ کفایت شعاری کیا ہوتی ہے؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے