سیاست اس لئے ایک پیچیدہ عمل ہے کہ اس کا ظاہر اور باطن بالکل مختلف ہوتا ہے‘ سیاسی معاملات میں پردہ سکرین پر جو کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ پردوں کے پیچھے جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اسے ظاہر نہیں کیا جا سکتا مگر لوگوں کو کچھ نہ کچھ بتانا توہوتا ہے اس لئے کوئی ایسا بیانیہ گھڑ لیا جاتا ہے جسے عام آدمی تسلیم کر لیتا ہے۔ آج کل اسرائیل اور ایران کے مابین جو سفارتی جنگ ہو رہی ہے وہ دونوں ممالک کی اس حکمت عملی کو ظاہر کر رہی ہے جس کا مقصد اصل حقائق پر پردہ ڈالنا ہے۔ حماس کے سربراہ اسما عیل ہنیہ کی اکتیس جولائی کو تہران میں شہادت کے بعد اسرائیل اور ایران بیانات کی حد تک ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کئی مرتبہ اسرائیل کو سخت نتائج کی دھمکی دے چکے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو مسلسل دشمن کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس صورتحال کی پیچیدگی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے امریکہ ایک طرف مصر اور قطر کے ساتھ مل کر اس بحران کو ختم کرنے کے لئے بھرپور سفارتی کوششیں کر رہا ہے اور دوسری طرف اس نے بحیرہ روم میں مزید جنگی طیارے اور میزائل بردار بحری بیڑے بھیج دیے ہیں۔ مغربی میڈیا کی خبروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں کسی نئی جنگ میں کودنے کے لئے تیار بھی ہے اور اسے روکنے کے لئے سفارتی کوششیں بھی کر رہا ہے۔اس دھماکہ خیز صورتحال کی تہہ میں چھپی ہوئی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اگر آج یہ اعلان کردے کہ وہ اسرائیل کو گولہ و بارود کی ترسیل روک دیگا تو بنجامن نتن یاہو کسی بھی صورت غزہ کی جنگ جاری نہیں رکھ سکتا۔ یورپی ممالک بھی طویل عرصے سے اسرائیل کو غزہ میں خونریزی بند کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود امریکہ نہ صرف اسرائیل کو اسلحے کی ترسیل جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ صیہونی ریاست سے اس کے اس تعاون کی خبریں بھی نمایاں طور پر امریکی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان خبروں کا مقصد امریکہ میں یہودی لابی کو یہ یقین دلانا ہے کہ امریکہ کبھی بھی اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس اعتبار سے امریکہ دنیا کو بیوقوف نہیں بنا رہا بلکہ وہ دھڑلے سے غزہ میں نسل کشی کرنے والی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے‘ ایک سپر پاور ہونے کا کم از کم اتنا فائدہ تو ہونا چاہیے کہ تضادات سے بھرپور خارجہ پالیسی کا دفاع کرنے کی بجائے اسے علی الاعلان جاری رکھا جائے۔ امریکی حکومت اتنی طاقتور ہے کہ اسے اپنے اصلی عزائم چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر اسرائیل اور ایران کیونکہ عالمی طاقتیں نہیں ہیں اس لئے وہ پورا سچ نہیں بول سکتے۔ ایران نے ابھی تک دھمکیاں دینے کے باوجود اگر اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل پر براہ راست حملہ کرکے اسے اشتعال نہیں دلانا چاہتا۔ ایرانی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل کو ایران کے جوہری توانا ئی کے مراکز کو تباہ کرنے کے لئے ایک بہانہ چاہیے۔ اسرائیل ایران کی سرزمین پر اس کے کئی نیوکلیئر سائنسدانوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ ایران نے اسرائیل کی اس دیدہ دلیری کا کوئی جواب نہیں دیا تو وہ اب اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لیکر اسرائیل کے غیض و غضب کو کیوں آواز دیگا۔اس تناظر میں اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ایران اگر انتقامی کاروائی نہیں کرتا تو اس صورت میں اسرائیل کیا کریگا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ ایران ایک ایٹمی طاقت بن جائے۔ اسے یقین ہے کہ جس دن ایران نے ایٹم بم بنا لیا اس دن اسرائیل کا مشرق وسطیٰ پر تسلط ختم ہو جائیگا۔ اسرائیل کی بقاء کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے علاقے میں اکلوتی ایٹمی طاقت کے طور پرموجود رہے۔ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لئے اسرائیل نے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے اس کی چند جھلکیاں اس وقت امریکی اخبارات میں نظر آئیں جب اسرائیل کے سابقہ وزیر اعظم اور آج کل کے مقبول ترین لیڈر Naftali Bennett نے واشنگٹن میں امریکی صحافیوں سے گفتگو کی۔ وہ چند روز پہلے امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز کے کالم نگار Bret Stephens نے ایک انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا کہ ایران تو ایک Defacto nuclear threshold state بن چکا ہے۔ وہ اب کسی بھی وقت ایک جست لگا کر ایٹمی طاقت بن سکتا ہے۔ اس کے بعد اس نے اگر بیلسٹک میزائلوں پر نیوکلیئر وار ہیڈ لگا کراسرائیل پر حملہ کردیا یا پھر یہی ہتھیار اس نے اگر لبنان میں اپنی پراکسی تنظیم حزب اللہ کو دے دئیے تو پھر اسرائیل کے مکمل خاتمے کو روکنا نا ممکن ہو جائیگا۔ چودہ اگست کو شائع ہونیوالے اس انٹرویو میں برٹ سٹیفن نے پوچھا کہ اسرائیل کو اس صورتحال کے تدارک کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ نیفتیلی بینٹ نے جو جواب دیا وہ اسرائیل کے خفیہ عزائم کا آئینہ دار تھا۔ اس نے کہا کہ ظاہر ہے کہ اب امریکہ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ عراق کی طرح کا حملہ ایران پر بھی کریگا اس لئے اب ایران کا راستہ روکنے کے لئے اسرائیل کو خود ہی کچھ کرنا پڑیگااور وہ یہی ہو سکتا ہے کہ ایران کے تیل کے تمام ذخائر تباہ کر دیئے جائیں۔ نیفتیلی بینٹ نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سوویت یونین کا انہدام اس کے معاشی تنزل کے نتیجے میں ہوا۔ ایران کی معاشی طاقت اس کے تیل کے ذخائر ہیں اور یہ سب ایک دوسرے کے قریب ہی واقع ہیں‘ اس لئے انہیں تباہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ بینٹ نے کہا کہ وہ اگر وزیر اعظم بن گئے تو ایران کی معاشی طاقت کی بیخ کنی کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اسرائیلی سیاستدان جب امریکہ آتے ہیں تو اپنے ملک کو مشرق وسطیٰ کی سپر پاور ظاہر کرنے کے لئے پورا سچ اگلنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ پورا سچ ان کے خفیہ عزائم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
اسرائیلی طاقت کی حدود
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
عالمی معیشت اور اسرائیل کی جارحیت
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
غزہ سے لبنان تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
صدارتی مباحثے کا نتیجہ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی