کئی دہائیوں سے پاکستان کی معیشت کو بیرونی دشمنوں نے نہیں بلکہ اندرونی قوت نے یرغمال بنا رکھا ہے جو پاکستان کے خارجی دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان کی دولت پر کنٹرول کرنے والے بائیس خاندانوں سے لے کر جدید دور کے صنعت کاروں، جاگیرداروں نے اپنے فائدے کے لئے قومی معاشی پالیسی میں ہیرا پھیری کی ہے۔ بھارت کے برعکس، جہاں پھلتا پھولتا متوسط طبقہ موجود ہے اور یہ طبقہ معاشی ترقی کو فروغ دے رہا ہے لیکن پاکستان پر خود غرض اشرافیہ کا غلبہ ہے لیکن اب کئی دہائیوں میں پہلی بارتبدیلی ہو رہی ہے؛ اسٹیبلشمنٹ نے معاشی معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے‘ اقتدار پر قبضہ کرنے کے طور پر نہیں بلکہ ایک ضرورت کے طور پر اسٹیبلشمنٹ بہتری لا رہی ہے کیونکہ نئی دنیا میں قومی سلامتی اب صرف سرحدوں اور دفاع کے بارے میں تصور نہیں بلکہ اقتصادی استحکام کا نام بھی ہے؛ کمزور معیشت کا مطلب کمزور پاکستان اور مضبوط معیشت کا مطلب مضبوط قومی سلامتی ہے۔پاکستان کے داخلی و خارجی مخالفین جوہری ہتھیاروں سے زیادہ معاشی استحکام سے خوفزدہ ہیں‘ کسی مضبوط معیشت کا مطلب مضبوط ریاست بھی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان کے اندر اور باہر غیر ملکی پراکسیز، معاشی استعمار اور معاشی دہشت گرد برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بحران کا شکار رہے، غیر ملکی قرضوں پر منحصر رہے، قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہیں اور ملک و قوم اشرافیہ کے کنٹرول میں جکڑے رہیں‘ ان کا پسندیدہ عذر کیا ہے؟ معاشی معاملات میں غیر منتخب افراد کی نام نہاد شمولیت رہے‘ اس مداخلت کی وجہ یہ ہے کہ انہی اشرافیہ نے کئی دہائیوں سے ملکی معیشت کو ہائی جیک کیا ہوا ہے۔انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے معاہدوں کو دیکھیںکئی سالوں تک بجلی کا شعبہ پاکستان کی معاشی اشرافیہ کے لئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی رہی ہے، جس نے اپنی پیداواری صلاحیت اور گنجائش سے زیادہ ادائیگیاں وصول کی ہیں اور اِس سے ملک کا خون ہوا ہے اربوں کی بچت اور غیر مستحکم معاہدوں پر پاکستان کا انحصار کم کرنا درحقیقت ملک کا دفاع ہے تاہم اس اقدام کی مخالفت وہی اشرافیہ کر رہی ہے جس نے قومی وسائل کا استحصالی معاہدوں کے ذریعے سے فائدہ اٹھایا۔پاکستان نے پہلی بار پرانے معاشی نظام کو چیلنج کیا ہے۔ آج اشرافیہ کے قبضے کی سب سے واضح مثالوں میں سے ایک مالیاتی پالیسی پر بینکاری کے شعبے کی گرفت ہے۔ پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) میں کون بینکوں کے درپردہ نمائندے (پراکسیز) شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بلند حقیقی شرح سود ملتا ہے جس سے بینکار فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ پاکستان کی حقیقی شرح سود دنیا میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً دس فیصد ہے، یہاں تک کہ اگلے بارہ ماہ میں زیادہ سے زیادہ افراط زر 7.9 فیصد سے زیادہ نہ ہونے کا تخمینہ ہے۔ کسی بھی معقول معاشی نظام میں حقیقی شرح سود اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہئے لیکن پاکستان میں بینکاری اشرافیہ نے ایک ایسا نظام تشکیل دیا ہے جو معاشی ترقی کو روکتے ہوئے اپنے لئے بڑے پیمانے پر منافع کو یقینی بناتا ہے اِس کے نتیجے میں صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں کیونکہ وہ کاروباری کریڈٹ (قرضوں) کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں‘ عجیب تماشا ہے کہ پاکستان کی معیشت سست روی کا شکار ہے جبکہ بینک ریکارڈ منافع کما رہے ہیں۔ پاکستان کو آبادی میں اضافے کے تناسب سے چھ فیصد جی ڈی پی نمو کی ضرورت ہے لیکن بلند شرح سود کی وجہ سے ایسا ہونا‘ ناممکن ہے۔ پاکستان کی سست اقتصادی ترقی سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ بینکنگ اشرافیہ جو اعلیٰ شرح سود سے آسان منافع کماتی ہے۔ صنعتی اشرافیہ جو مسابقت نہیں بلکہ اجارہ داری چاہتی ہے اور سیاسی اشرافیہ جو اپنی مطابقت برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کرتی معیشت کے بل بوتے پر زندہ ہے۔ پاکستان اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک معیشت پر اشرافیہ کا کنٹرول ختم نہیں ہو جاتا۔ آج یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ معاشی اصلاحات کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ وراثت میں ملنے والے معاشی استحقاق کا دور ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس کے متوسط طبقے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) اور خود ساختہ کاروباری اداروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اشرافیہ کی اجارہ داریوں، بلند شرح سود پر منافع خوری اور استحصالی کاروباری طریقوں پر مبنی پرانا معاشی ماڈل ختم ہونا چاہئے۔ اگر اشرافیہ کے اِس معاشی قبضے کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے غیر منتخب مداخلت ہوئی یہ خوش آئند تبدیلی (اقدام) ہے۔ اگر ہماری قومی سلامتی کی طرح معاشی سلامتی کو فورسز یقینی بنا رہی ہیں تاکہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے تو یہی وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی بقا ءکا دارومدار اشرافیہ کے نظام کو ختم کرنے اور ایک ایسا نظام بنانے میں ہے جو سب کے لئے کام کرے اور کوئی بھی طاقت چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی، اس تبدیلی (معاشی اصلاح) کو نہیں روک سکتی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسان الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: کارہائے نمایاں
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
عالمی طاقتیں اور ایشیا
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کھیل کود کی اہمیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ، مسک اور نظام کی خرابی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
روشن مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس اور صلاحیتیں
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تعلیم و ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بھارت امریکہ گٹھ جوڑ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام