گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنے کی خاطر پاکستان کے لئے ماحول دوست الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) گاڑیوں کا استعمال انتہائی اہم ہے۔ اگلے پچیس سالوں میں پاکستان کی آبادی بڑھ کر 40 کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی جس میں 70فیصد آبادی شہروں میں آباد ہو گی اور ظاہر ہے کہ اِس قدر بڑی آبادی کے لئے آمدورفت کی ضروریات پوری کرنا اور الیکٹرک ذرائع آمدورفت کا فروغ و ترقی ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی خطرات کم کئے جا سکیں۔ اقتصادی اور ماحولیاتی استحکام کے لئے ”ای ویز (الیکٹرک وہیکلز)“ کو اپنانا ضروری ہے‘ جو عالمی ڈی کاربنائزیشن کی کوششوں اور پیرس معاہدے کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ پاکستان نے 2030 ء تک 30 فیصد ای ویز تک رسائی کا ہدف مقرر کر رکھا ہے جس سے ممکنہ طور پر سالانہ 80 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی بچت ہوگی اور پبلک ٹرانسپورٹ کو آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں سے الیکٹرک گاڑیوں میں منتقل کرکے کاربن اخراج میں نمایاں بھی کمی آئے گی۔
مالیاتی، ریگولیٹری اور بنیادی ڈھانچے کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے منظم نکتہئ نظر کی ضرورت ہے۔نئی انرجی وہیکل پالیسی (2025-2030ء)، جو فی الحال ترقی کے مراحل میں ہے کے لئے مربوط وکثیر اسٹیک ہولڈر کوششوں کی ضرورت ہے۔ ای ویز کو اپنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ زیادہ قیمت ہے، جس میں بیٹریاں ای ویز کی کل قیمت کا چالیس سے پچاس ہیں۔ 2023ء میں لیتھیم کی قیمتوں میں 60فیصد کمی کے باوجود، سستی بیٹریوں کا حصول چیلنج بنا ہوا ہے اور اِس کی راہ میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ایک اور بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ پاکستان کے پاس فی الوقت چارجنگ نیٹ ورک بہت کم ہے جبکہ اِس سلسلے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں توسیع قابل عمل حل فراہم کر سکتی ہے۔ ایک اور اہم تشویش تاریخی اعداد و شمار کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے ای ویز کی دوبارہ فروخت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے اور اِس سے قرض دہندگان کے لئے خطرے کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ’ای ویز‘ کے لئے مضبوط ثانوی مارکیٹ قائم کرنے سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ فرسودہ نیشنل گرڈ کو بھی چیلنجز درپیش ہیں، جس کی وجہ سے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی میں ای ویز انضمام کو مؤثر طریقے سے سپورٹ کرنے کے لئے فوری اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ناقابل بھروسہ بجلی کی فراہمی ممکنہ ای وی صارفین کے لئے باعث تشویش امر ہے، جس میں ای وی چارجنگ اسٹیشنوں میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع ضم کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔
بلند شرح سود فنانسنگ کو مشکل بنادیتی ہے، جس کی وجہ سے آئی سی ای سے چلنے والی گاڑیوں سے منتقلی کو آسان بنانے کے لئے زیادہ سبسڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کثیر الجہتی اور قومی ترقیاتی بینکوں سے رعایتی فنانسنگ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر ای وی انفراسٹرکچر کے لئے قرضہ جات حاصل کرنا اہم ہیں۔ حکومتی مراعات، پالیسیوں اور سبسڈیز کا فقدان بھی اِس شعبے کے پھلنے پھولنے میں بڑی رکاوٹ ہے، جس کے لئے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک ای وی فنانسنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ کینیا نے دیہی نقل و حرکت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے الیکٹرک موٹر سائیکلوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، جو صارفین کو سستی فنانسنگ فراہم کرتے ہیں۔ ویت نام نے حکومت اور نجی سرمایہ کاروں کے درمیان خطرات کو متوازن کرتے ہوئے ای وی انفراسٹرکچر کو وسعت دینے کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ مثالیں وسیع پیمانے پر، جدید نکتہئ نظر کو اجاگر کرتی ہیں جو پاکستان اپنے منفرد سیاق و سباق کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔چین ای وی ماحولیاتی نظام کی ترقی میں اہم کیس اسٹڈی ہے۔ چین کی حکومت نے 2009ء سے 2023ء تک سود میں چھوٹ، سیلز ٹیکس چھوٹ اور بنیادی ڈھانچے میں 230 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کے لئے اسی طرح کے مرحلہ وار اور مقررہ مدت کے نکتہئ نظر پر عمل درآمد کرسکتا ہے۔ چین کی تکنیکی مہارت‘ خاص طور پر لیتھیم بیٹری کی پیداوار میں، ای ویز کو زیادہ سستا بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مغربی منڈیوں کی جانب سے چینی مینوفیکچررز پر زیادہ محصولات عائد کئے جانے کے بعد چین کی کمپنیاں تیزی سے چھوٹے اور تجارت دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہیں اور یہی موقع ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے آزاد تجارتی معاہدوں سے فائدہ اٹھائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عدنان پاشا صدیقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)