ہمالیہ کے برفانی تودے (گلیشئرز) کم ہونے کی وجہ درجہئ حرارت میں اضافہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں دریاؤں سے انسانی زندگیوں کی بقا ء وابستہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان دریاؤں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ دریائے سندھ سے متعلق 1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ”سندھ طاس معاہدہ“ ہوا جسے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا سنگ میل سمجھا جاتا تھا تاہم بھارت کی جانب سے اِس کے معطل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ پیشرفت مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد ہوئی جسے بھارت نے اپنی قومی سلامتی پر وار قرار دیا اور اِس پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ اچانک معطل کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اِس اعلان سے قبل بھی بھارت نے پاکستان کا پانی روک دیا اور اِس حوالے سے اہم ڈیٹا کے تبادلے کو بھی منقطع کرتے ہوئے مزید اپ سٹریم کنٹرول کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔ گزشتہ چند برس سے پنجاب کے کسان بے بسی سے یہ منظرنامہ دیکھ رہے ہیں کہ چناب کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔پانی‘ طویل عرصے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی میں ایک خاموش مدعا رہا ہے۔ پینے کی ضروریات ہوں یا زراعت اور پن بجلی کے منصوبے مغربی دریاؤں پر انحصار کرنے والے پاکستان کے لئے خطرات زیادہ ہیں۔ جیسے جیسے آب و ہوا کی تبدیلی شدت اختیار کر رہی ہے یہ سوال درپیش ہے کہ کیا کمزور نچلے دریائی ملک طاقتور بالائی ہمسایہ ممالک کے ہاتھوں اپنے حقوق کا استحصال روک سکیں گے؟1947ء کی تقسیم کے بعد سے پانی کے تنازعات جاری ہیں اور یہی وجہ تھی کہ عالمی بینک کی ثالثی سے ہونے والے سندھ طاس معاہدے نے سندھ، جہلم اور چناب نامی دریا پاکستان کو دیئے جبکہ بھارت کو راوی، بیاس اور ستلج دیا گیا۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشن گنگا اور بگلیہار نامی ڈیمز بنائے جس سے دریاؤں کا نشیبی بہاؤ کم ہو گیا۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے پانی کی ضرورت زیادہ ہوئی لیکن بھارت نے پاکستان کو دیئے جانے والے پانی کی مجموعی دستیابی میں کمی جاری رکھی۔ یہ ایک قانونی لڑائی ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کی پن بجلی کی ترقی سندھ طاس اور دیگر معاہدے کے تحت ملنے والے حقوق پر مبنی ہے۔ بین الاقوامی ثالثی شروع کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت معاہدے کی روح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی کو ہتھیار کے طور استعمال کر رہا ہے۔پاکستان کو اپنی بقا ء کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کو سندھ طاس کے تنازعے کو بین الاقوامی بنانا ہوگا۔ تکنیکی بات چیت کرنا ہوگی۔ مستقل انڈس کمیشن آج کے جیو پولیٹیکل تناؤ کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ اسلام آباد کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل جیسے فورمز تک لے جائے اور معاہدے کے ضامن کی حیثیت سے عالمی بینک کے کردار سے فائدہ اٹھائے۔ دوسری ضرورت سیاسی بیانیے کی تشکیل کی ہے۔ تیسرا، تکنیکی امور پر پاکستان کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ چوتھا‘ بھارت کے علاقائی عزائم سے محتاط رہتے ہوئے چین کا جنوبی ایشیا کے دریاؤں کو مستحکم رکھنے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ آخری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو آب و ہوا کی تبدیلی کو بطور دلیل اور بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہئے۔ آب و ہوا کی تبدیلی مستقل اور مستقبل کے لئے بھی خطرہ ہے۔ بھارتی اقدامات سے ماحولیاتی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی تنظیموں، ماحولیاتی کارکنوں اور دوست ممالک کو اپنی حمایت میں اکٹھا کر سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رفعت انعام بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
پاکستان اُور تجارتی جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت اُور ترجیحات ِحکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت میں اضافہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جنوب ایشیا قلت اور جغرافیائی سیاست
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
خطرناک ہتھیار
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
آزاد تجارتی معاہدہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تغیرات اور اثرات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تجارتی محصولات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کیا ٹرمپ ماضی سے سبق سیکھیں گے؟
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تجارتی جنگ:پاکستان کا مفاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام