تیسری عالمی جنگ کی تیاریاں

پہلگام واقعہ کیوں ہوا؟ پاکستان پر الزام کیوں لگایا گیا؟ کہیں اس کے پیچھے کوئی عالمی منصوبہ تو نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ بساط پر مہروں کی ترتیب جاننی ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ ہوتی ہے تو کون کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اور کیا عالمی جنگ معاشی ہوگی یا روایتی ڈھب اپنایا جائے گا اور اس میں ایٹم بموں کا استعمال بھی ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہن میں آتے ہیں، اور ہر وہ شخص جسے ذرہ برابر بھی عالمی صورتحال سے دلچسپی ہے تو وہ ان سوالات کا جواب ڈھونڈ رہا ہے، غزہ اور یوکرین کے حالت کہیں پیچھے جا چھپے اور اس وقت برصغیر میں پائی جانے والی کشیدگی پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کا جائزہ لیں تو اس وقت دنیا کی آبادی 2 ارب 30 کروڑ کے لگ بھگ تھی، جنگ میں 70 ملین یعنی 7 کروڑ افراد ہلاک ہوئے، دوسری جنگ عظیم میں دو ایٹم بم بھی استعمال ہوئے، ہر ایک کی قوت 15 کلو ٹن یعنی 15 ہزار ٹن ٹی این ٹی تھی، اور ایک ایٹم بم سے اوسطاً سوا لاکھ کے قریب افراد مارے گئے، آج دنیا کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 8 ارب 23 کروڑ ہے۔ یعنی جنگ ہوئی تو 2 ایٹم بموں اور روایتی لڑائی میں کم از کم 25 کروڑ افراد کی موت یقینی ہے، حالاں کہ آج کے ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی بہت زیادہ ہے، دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والا اسی قوت کا ایک ایٹم بم اگر آج پھٹے تو دنیا کی موجودہ آبادی کے تناسب سے کم از کم 5 لاکھ 36 ہزار کے قریب افراد مارے جائیں گے۔ یعنی 100 بم پھٹے تو 5 کروڑ 36 لاکھ ہلاک ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس 220 سے 250 اور انڈیا کے پاس 172 ایٹم بم ہیں، یعنی اگر بھارت اور پاکستان میں ایٹمی جنگ ہوجائے تو شاید اس خطے کی خاصی بڑی آبادی ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔

اس وقت دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 12 ہزار ایک سو سے زیادہ ہے۔ جن ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ان میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس، پاکستان، بھارت، اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ اگر دیگر ملکوں نے بھی ایٹم بم استعمال کیے تو دنیا میں ہلاکتوں کا اندازہ خود لگا لیں۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اسے ”مسلم بم“ کا نام دیا گیا۔

اب آتے ہیں سوالات کے جواب کی طرف۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پہلگام حملہ پاکستان نے کرایا، جب کہ پاکستان اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حملے سے اس کا کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے، بھارت دنیا کے جس ملک سے چاہے واقعہ کی تحقیقات کرالے، پاکستان ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کو تیار ہے، بھارت میں ہی لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہر بار کسی عالمی سطح کے رہنما کی بھارت آمد یا بھارت میں الیکشن کے وقت ہی دہشت گردی کا واقعہ کیوں رونما ہوتا ہے؟ بعض اپوزیشن رہنماؤں نے تو پہلگام واقعہ کو ترتیب شدہ واقعہ قرار دیتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ایک رہنما نے تو بالا کوٹ پر بھارتی حملے کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو مودی حکومت اس کے ثبوت پیش کرے۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے مطابق ”انھیں امید ہے کہ بھارت دہشت گردانہ حملے کا جواب اس انداز میں دے گا کہ وسیع تر علاقائی تنازع پیدا نہ ہو، پاکستان بھی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھارت سے تعاون کرے کہ اس کی سرزمین پر بعض اوقات سرگرم دہشت گردوں سے نمٹا جائے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے“۔ یعنی انھوں نے بھارت کو محدود حملہ کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستان میں دہشت گردوں کے سرگرم ہونے کی بھی بات کرڈالی۔ بھارتی میڈیا بہت زور و شور سے اس بیان کو پیش کر رہا ہے، ساتھ ہی بھارت اور اسرائیل کی دوستی کے گن گا رہا ہے، اور یہ کہ اسرائیل اور بھارت جگری یار ہیں۔ حماس کے اسرائیل پر حملے اور 12سو یہودیوں کی ہلاکت کے بعد جیسے اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد کردیا ہے بالکل اسی طرح پہلگام میں 26 افراد کی ہلاکت پر پاکستان کو ملبے کا ڈھیر بنانا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ اسرائیلی طیارے اب تک کئی بار بھارت آجاچکے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا ہے کہ امریکا کے پاس ایسے ہتھیار ہیں جن کے بارے میں دنیا نے سوچا بھی نہیں ہوگا، انھوں نے امریکی افواج کو مزید مضبوط بنانے اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کردیے ہیں۔

پہلگام واقعہ کے بعد بساط پر مہروں کی ترتیب بن رہی ہے، مبینہ طور پر کسی سازشی نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی بات سچ ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے، بھارت کا انتہا درجے کا جارحانہ رویہ، اسرائیل کا کھل کر اور امریکا کا دبے لفظوں میں بھارت کی مدد کو آگے آنا کھیل کی شکل واضح کرتا ہے اور اوپر اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے رہا ہے۔

دنیا کی معاشی صورتحال پر نظر ڈالیں تو غزہ کی صورتحال نے مشرق وسطیٰ میں امریکی تجارتی مفادات کو شدید زک پہنچائی ہے، اور اس کے تجارتی منصوبے تعطل اور تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں، دوسری طرف چین کا سلک اینڈ روڈ منصوبہ جاری ہے، سی پیک پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اسے پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی مل چکی ہے۔ خطے اور خطے سے باہر چینی تجارتی راہداری اور منصوبوں کو عالمی معیشت پر امریکی گرفت کے لیے خطرہ تصور کیا جارہا ہے۔

یہاں بلوچستان کی دگرگوں صورتحال کو بھی ذہن میں رکھا جائے، پاکستان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی خرابی میں بھارت براہ راست ملوث ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے نیوز کانفرنس کی اور واضح کیا کہ بھارتی فوج براہ راست پاکستان میں دہشت گردی کرا رہی ہے، انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے میجر سندیپ ورما اور ایک دہشت گرد کی گفتگو سنوائی جس میں پاکستان میں دہشت گردی کے منصبوں پر بات چیت کی گئی تھی۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں دہشت گرد کارروائیاں بھی کسی بڑی سازش کا حصہ نظر آرہی ہیں۔

خطے کے دوسرے ملکوں پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں، بنگلا دیش نے بھی اپنی افواج کو مضبوط کرنا شروع کردیا ہے، پاکستان سے بڑھتی قربتیں بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہیں اور بنگلا دیش کو پاکستان سے دور کرنے یا لاتعلق رکھنے کے لیے مودی حکومت نے بھارت میں موجود بنگلادیشی شہریوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کردی ہے، ان کی بستیوں کو گرایا جارہا ہے اور ملک بدر کرنے کی کارروائی شروع ہوچکی ہے، ساتھ ہی بھارت میں زیر تعلیم بنگلا دیشی طلبا بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔ امریکی ٹیرف کے نفاذ نے بنگلادیش کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ترکیے نے واضح طور پر پاکستان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے، دیگر اسلامی ملکوں کے ردعمل بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت ان مسلم ملکوں کو بھی قائل کرنے میں ناکام رہا ہے جن کے بھارت سے تجارتی و معاشی مفادات ہیں۔ یہ بات بھارت کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔ رہی سہی کسر روسی وزیرخارجہ شرگئی لاوروف نے پوری کردی، انھوں نے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی سے گریز کریں، مسائل کو مذاکرات اور سفارت کاری سے گریز کریں۔

یورپین یونین نے بھی بھارت کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے، جس پر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ناصرف آپے سے باہر ہوگئے بلکہ سفارتی زبان کا بھی لحاظ نہ رکھا اور بولے کہ بھارت کو کسی مبلغ کی نہیں شراکت داروں کی ضرورت ہے، جن باتوں کی ہمیں تبلیغ کی جارہی ہے، یورپ خود ان اصولوں پر عمل نہیں کرتا۔ بظاہر بھارت کو ایک کے بعد دوسرا اور تیسرا دھچکا لگ رہا ہے لیکن اصل میں یہ دھچکے امریکا اور اسرائیل کو لگ رہے ہیں۔

خطے کا اہم ملک ایران بھی ہے جسے مسلسل امریکی پابندیوں کا سامنا ہے، اس کا وزن کس طرف جائے گا، یہ ابھی واضح نہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ وہ خطے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حمایت کرسکتا ہے۔

تھوڑی سی بات پاکستان کے بارے میں اسرائیلی خیالات کی، قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ پاکستان کے جوہری پروگرام نے اول دن سے ہی اسرائیل اور بھارت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں، یہ 70 کی دہائی کے آخر کی بات ہے جب پاکستان میں ایٹمی پروگرام پر کام جاری تھا، 1979 اور 1980 کے درمیان اسرائیلی تنظیم موساد نے پاکستان کو بم کی تیاری کے لیے آلات فراہم کرنے والوں کو نشانہ بنایا، پاکستان کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اسرائیل پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے، 1979 میں اسرائیلی وزیراعظم میناہیم بیگن نے مغربی رہنماؤں کو پاکستان کے خلاف خطوط لکھنا شروع کردیے، برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو خط میں لکھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک دن اسرائیل کے لیے سنگین خطرہ ہوگا۔ بریگیڈیئر جنرل فیروز حسن خان ریٹائرڈ نے اپنی کتاب ایٹنگ گراس میں 80 کی دہائی میں کہوٹہ جوہری تنصیبات پر اسرائیل اور بھارت کے مشترکہ حملے کی سازش کی تفصیلات بیان کی ہیں۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بھارت نے پہلگام حملے کو بنیاد بنا کر سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، پاکستان کی امداد روکنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں پر دباؤ ڈال رہا ہے، بھارت کو اسرائیل کی واضح حمایت حاصل ہے، امریکا نے بظاہر محدود حملے کی اجازت دے دی ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت واقعی پہلگام واقعہ کا ”بدلا“ لینا چاہتا ہے یا پھر اصل ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے؟ اور ممکنہ تیسری عالمی جنگ سے قبل پاکستان کو معاشی و عالمی سطح پر کمزور کرکے خطے میں طاقت کا توازن بدلنا ہے؟