نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ میں فوٹیج پر ججز اور وکلاء کے درمیان اہم مکالمہ

نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی سزاؤں کے خلاف اپیل کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل پیش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر مبنی ہے، اور اپیل کنندہ کے خلاف شواہد کا شک و شبہ سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔**

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر فیصلہ آج ہی کردیا جائے گا۔ لیکن دلائل کی طوالت کے باعث فیصلہ نہ ہوسکا۔

اب منگل کو جاری اس سماعت میں مجرم کے وکیل سلمان صفدر نے جائے وقوعہ سے برآمد سی سی ٹی وی فوٹیجز کے حوالے سے کہا کہ عدالت ان فوٹیجز سے باہر بطور شواہد نہیں جا سکتی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پراسیکیوشن کی فوٹیج چلانے کی کوشش کی گئی، مگر وہ چل نہ سکی، اور جو ویڈیو چلائی گئی وہ وکیل کی فراہم کردہ یو ایس بی سے چلائی گئی تھی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ان دلائل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، اسے آپ پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فوٹیج میں نہ کوئی ٹیمپرنگ ہوئی ہے اور نہ ہی چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر کوئی انسان ویڈیو بناتا تو اعتراض ہو سکتا تھا، مگر اس ویڈیو کے معاملے میں کوئی انسانی مداخلت ہے ہی نہیں کیونکہ یہ سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے ریکارڈ ہوئی ہے۔

سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چوکیدار اور مالی کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا۔ وکیل نے بتایا کہ چوکیدار اور مالی کو دس، دس سال کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ ان پر الزام صرف یہ ہے کہ انہوں نے مقتولہ کو جانے سے روکا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے اس پر ریمارکس دیے کہ اگر مجرمان مقتولہ کو نہ روکتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ وکیل نے مؤقف اپنایا کہ مالی اور چوکیدار کی گھر میں موجودگی کے علاوہ ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ تنخواہ سے زیادہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

چوکیدار اور مالی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نور مقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل کا آغاز کیا، تاہم عدالت نے دیگر کیسز کے باعث سماعت میں وقفہ کر دیا۔