پاکستان میں فضائی حادثات

زندگی عارضی ہے کسی بھی چیز کو بقا ء نہیں لیکن ہم زندگی کا یہ کڑوا سچ بھول کر وقت کی خوش گمانیوں میں کھو جاتے ہیں جو سامنے منظر دیکھتے ہیں اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ گمان خاموشی کے ساتھ وقت کا تعاقب کرتا رہتا ہے لیکن جب ہم کبھی کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں تو زندگی کی بے ثباتی کا احساس غیر محسوس اداسی کی صورت میں در آتا ہے۔ تاریخ انسانیت پر نظر ڈالی جائے تو اربوں انسانوں نے اس دنیا میں اپنی عمر گزاری اور موت کو گلے لگا کر فنا کی راہوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معدوم ہو گئے‘اوراق تاریخ میں صرف انہی لو گوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ 22مئی کو لاہور سے کراچی جانے والی قومی پرچم بردارائر لائن (پی آئی اے) کی پرواز کراچی میں لینڈنگ سے 30 سیکنڈ قبل حادثے کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں 100سے زائد افراد جاں بحق ہوئے‘ پرواز8303  میں 90 مسافروں اور 8 عملے کے لوگ موجود تھے۔طیارے کو دوپہر 2  بج کر 40 منٹ پر جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا۔طیارہ لینڈنگ اپروچ پر تھا کہ کراچی ایئر پورٹ کے جناح ٹرمینل سے محض چند کلومیٹر پہلے ملیر ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن کی آبادی پر گر گیا۔طیارے کے حادثہ کی تحقیقات کیلئے فرانس کی  معروف طیارہ ساز کمپنی ایئربس  کے ماہرین پر مشتمل 11 رکنی فرانسیسی ماہرین کی ٹیم اپنے منفرد انداز میں ابتدائی تحقیقات کرکے واپس فرانس روانہ ہو چکی ہے جہاں پر بلیک بکس اور آڈیو ریکارڈنگ کو ڈی کوڈ کیا جائے گا۔ملک میں طیارہ حادثات کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے تو 7دسمبر 2016ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع چترال سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادجانے والا پی آئی اے کا جہاز حویلیاں کے قریب گرکر تباہ ہوا اس بدقسمت طیارے میں معروف مبلغ جنیدجمشید اور ڈی سی چترال اسامہ وڑائچ سمیت 42 مسافر اور عملے کے 5 اراکین سوار تھے۔شہید ہونے والوں میں 31 مرد ٗ 9 خواتین اور 2 شیر خوار بچے شامل تھے۔پی آئی اے کی پرواز پی کے 661 کی روانگی کا وقت 3بج کر 30 منٹ تھا اور اسلام آباد آمد کا وقت 4 بج کر 40 منٹ تھالیکن طیارہ اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے صرف 25منٹ پہلے 4بج کر 15منٹ پر حادثے کا شکار ہوگیا۔پاکستان میں حویلیاں سے قبل آخری فضائی حادثہ 20 اپریل 2012 ء کو نجی ایئر لائن بھوجا کی پرواز لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی تھی اس میں 127 افراد سوار تھے‘ پاکستان میں کسی طیارے کے حادثے کے تقریباً ساڑھے چار سال بعد حویلیاں کا حادثہ پیش آیا۔کراچی میں 28 نومبر2010 ء کو ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا اور اس حادثے میں 12 افرادجاں بحق ہوگئے تھے۔بین الاقوامی فضائی حادثوں اور ہنگامی مواقع پر نظر رکھنے والے نجی دفتر”ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس“ کے مطابق اس حادثے سے قبل پاکستان میں 35 ایسے حادثے ہوئے ہیں جن میں 705 افراد جاں بحق  ہوئے۔ملک کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا ء حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب 28 جولائی  2010 ء کو پیش آیا تھا جب نجی ایئر لائن ایئر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی اس میں 152 افراد سوار تھے۔اس سے قبل 10 جولائی 2006 ء کو سرکاری ہوائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا فوکر طیارہ ملتان ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا اس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے 2 جج ٗ فوج کے 2 بریگیڈئر اور بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔مسافروں کی اموات کا سبب بننے والے حادثات میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یا ابتدا ء میں پاک ایئر ویز کو 11 حادثے اندرونِ ملک ہی میں پیش آئے جن میں سے 5 حادثے فوکر طیاروں کے تھے‘2006 ء میں ملتان کا فوکر طیارے کا حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا اندرونِ ملک سب سے جان لیوا حادثہ تھا جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا۔ملک میں اب تک فوجی مسافر طیاروں کے 10 حادثے پیش آئے ہیں۔ آخری حادثہ پاکستان ایئر فورس کے فوکر طیارے کا تھا جو 20 فروری  2003 ء کو پیش آیا۔ کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے میں اس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر 17 افسران سمیت جاں بحق ہو گئے تھے۔پاکستانی فضائیہ کے لئے اب تک مال بردار طیارے ہرکولیس سی ون تھرٹی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں جن میں خصوصی کیپسول رکھ کر مسافروں کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ہرکولیس سی ون تھرٹی کے چار حادثوں میں سے 17 اگست 1988 ء کو بہاولپور کے قریب پیش آنے والا حادثہ قابلِ ذکر ہے جو اس وقت کے صدر اورچیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا ء الحق سمیت 30 اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت کا سبب بنا۔پاکستانی سرزمین پر گزشتہ 63 برس میں غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے 9 فوجی اور غیر فوجی مسافر بردار طیاروں کو حادثے پیش آئے۔ان میں سے 3 حادثوں میں افغانستان کے مسافر بردار طیارے گر کر تباہ ہوئے۔ 13 جنوری 1998 ء کو افغان ہوائی کمپنی آریانا ایئر کا مسافر طیارہ خوژک پہاڑی سلسلے میں توبہ اچکزئی کے علاقے میں گرا۔ اس حادثے میں 51 مسافر ہلاک ہوئے اور یہ 28 جولائی 2010 ء سے پہلے تک پاکستانی سرزمین پر سب سے زیادہ جان لیوا فضائی حادثہ تھا۔9 جنوری 2002 ء کو امریکی ایئر فورس کا ہرکولیس سی ون تھرٹی بلوچستان کے شمسی ائر بیس کے قریب گر کر تباہ ہوا اور سات مسافروں کی موت کا سبب بنا۔ یہ پاکستان میں کسی غیر ملکی طیارے کا آخری حادثہ تھا۔24 فروری 2003 ء کو ایدھی ایئر ایمبولینس کا سیسنا 402 طیارہ کراچی کے قریب 8 مسافروں کی موت کا سبب بنا۔قیامِ پاکستان سے اب تک مختلف مقامات پر 37 فضائی حادثات میں اب تک 745 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں اعلیٰ فوجی افسران، غیر ملکی مندوبین اور سول حکام کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے۔پی آئی اے کی تاریخ میں پاکستان کے طیارے کو پہلا فضائی حادثہ عراق میں پیش آیا تھا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا جبکہ دوسرا حادثہ 26 نومبر 1948 کو پنجاب کے علاقے وہاڑی میں پیش آیا جس میں 21 مسافر اور5 عملے کے افراد جان بحق ہوئے تھے یہ پہلا فضائی حادثہ تھا جس میں جانی نقصان ہوا۔اپنی نوعیت کا ایک اور حادثہ 20 مئی 1965 ء کو قاہرہ ایئرپورٹ کے رن وے پر پیش آیا جس کے نتیجے میں پی آئی اے بوئنگ 707 پر سوار 124 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔5 سال بعد 6 اگست 1970 ء کو پی آئی اے کا ایف 27 ٹربو پروپ ایئر کرافٹ اسلام آباد سے تھنڈر اسٹوورم روانگی سے قبل تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 30 افراد جاں بحق ہو گئے۔ اسی طرح 8 دسمبر 1972 ء کو پی آئی اے کا فوکر 27 راولپنڈی میں تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 26 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ بیٹھے تھے۔جانی نقصان کے حوالے سے سب دردناک حادثہ 26 نومبر 1979 ء کو پیش آیا تھا جب پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارہ‘ جسے پاکستانی حاجیوں کو لے کر سعودیہ سے پاکستان آنا تھا‘ جدہ ایئر پورٹ پر حادثے کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں 156 حاجی خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

23 اکتوبر 1986 ء کو پیش آنے والے اپنی نوعیت کے پہلے واقعے میں پی آئی اے کا فوکر ایف 27 پشاور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہو گیا تھا جس میں 13 افراد جاں بحق ہو گئے تا ہم اس واقعے میں 41 افراد محفوظ رہے تھے۔ بیرون ملک پیش آنے والا سب سے بڑا نقصان 28 ستمبر 1992 ء کو رونما ہوا جب پی آئی اے کی ایئر بس اے 300 نیپال کے دار الحکومت کھٹمنڈو میں تباہ ہوگئی  تھی جس کے نتیجے میں 167 افراد جاں بحق ہوگئے‘24 فروری 2004 کو چارٹرڈ طیارہ کیسنا 402 بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں افغانستان کے وزیر برائے معدنیات، چار افغان حکام اور3 چینی افراد اور دو پاکستانی افسران جاں بحق ہوگئے تھے‘ ترقی یافتہ ممالک میں فضائی حادثات کی تحقیقات ایک آزاد تحقیقاتی ادارہ کرتاہے یہی ادارہ تحقیقات مکمل ہونے پر تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع کرتا ہے۔ پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات سیفٹی انویسٹیگیشن بورڈ (ایس آئی بی)کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات کرنے والایہ ادارہ اس قدر آزاد نہیں اور اس کے ارکان کی قابلیت بھی سوالیہ نشان ہے۔ سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک شعبہ کے طور پر کام کررہا تھا۔ 2006 ء میں ملتان فوکر حادثہ کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حادثات کی آزاد اور غیرجانبددارانہ تحقیقات کیلئے شعبہ سیفٹی انوسٹی بورڈ یا ایس آئی بی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی سے الگ کیا جائے‘ بالآخر اگست 2015 ء میں سیفٹی انوسٹی گیشن  بورڈ کو سی اے اے سے الگ کردیا گیا۔شہری ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔شہری ہوا بازی کا مرکز کراچی ہے، مگر ایس آئی بی کا دفتر اگست 2015 ء میں راولپنڈی منتقل کردیاگیا۔بتایا گیا کہ یہ اقدام ایس آئی بی کو آزاد کرنے کیلئے کیا گیا‘کراچی میں ایس آئی بی کا دفتر سی اے اے کی عمارت میں تھا۔ راولپنڈی میں بھی یہ دفتر سی اے اے کی عمارت میں ہی ہے۔ پہلے ایس آئی بی کا سربراہ پاکستان ایئرفورس کا ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسر ہوتا تھا۔اب بھی ایس آئی بی کا سربراہ ایئر فورس کا افسر ہی ہے۔ آزاد ہونے سے پہلے ایس آئی بی کا سربراہ ڈیپوٹیشن یا کنٹریکٹ پر سی اے اے کا ملازم ہوتا تھا اور اب آزاد قرار دینے کے بعد بھی تنخواہ سی اے اے سے ہی ملتی ہے۔ ایس آئی بی کا بجٹ بھی سی اے اے ہی دیتا ہے۔ تو یہ ادارہ آزاد کیسے ہوا؟۔ امریکہ کا نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ فضائی حادثات کی تحقیقات کے بعد رپورٹ بھی خود شائع کرتاہے جبکہ پاکستان میں حکومتی اجازت کے بغیر تحقیقاتی رپورٹ جاری نہیں کی جاسکتی۔ ایس آئی بی کے سربراہ عموماً دو برس کے کنٹریکٹ یا ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں  ان کے پاس صرف فوجی طیاروں کے حادثات کی تحقیقات کا تجربہ ہوتا ہے اور بعض کے پاس یہ بھی نہیں ہوتا۔مسافر بردار طیاروں کا تو بالکل ہی تجربہ نہیں ہوتا تاہم کنٹریکٹ پر آنے والے افسران جب کچھ تجربہ کار ہوتے ہیں تو ان کی مدت ملازمت ختم ہوجاتی ہے پھر نیا آدمی آجاتا ہے۔مسافر بردار طیارے فوجی طیاروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں اور حادثات کی وجوہات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کمرشل طیاروں کے حادثات کی تحقیقات کرنے والے برسوں کا تجربہ رکھتے ہیں اور مختلف اقسام کے طیاروں کے ماہرین الگ الگ ہوتے ہیں‘پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات میں حکومتی عمل دخل بہت ہوتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹس میں عموما ًحادثے کی ذمہ داری پائلٹ پر عائد کردی جاتی ہے جو کہ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کے لئے موجود نہیں ہوتا۔ ماضی میں پائلٹس کی تنظیم پالپا بھی تحقیقاتی رپورٹس پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے‘ لہٰذا ماہرین کا مطالبہ ہے کہ کراچی طیارہ حادثہ کی تحقیقات میں پائلٹس کے نمائندے اور آزاد تحقیقاتی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے۔