ایک مختلف دنیا

 دنیا کے معاشی سیاسی اور انتظامی حالات اور معاملات کافی بدل چکے ہیں اور جو لوگ کورونا وائرس کی زد سے بچ جائیں گے تو اس کے بعد دنیا کا نقشہ بشمول پاکستان ہر لحاظ سے ماضی کے نقشے سے کافی مختلف ہوگا ‘کورونا وائرس نے قوم کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر ادھ موا کر دیا ہے اوراب اس میں کسی اور وبا یا بیماری سہنے کی قوت بالکل نہیں‘ آج کل مچھروں کا سیزن ہے کوئی دن جاتا ہے کہ ڈینگی اس ملک پر حملہ آور ہو سکتے ہیں یہ اچھی بات ہے کہ اس سے پیشتر بھی ڈینگی سے ہمارا واسطہ پڑ چکا ہے ‘اس لئے ہمارے ڈاکٹروں کو اس سے نبٹنے کا طریقہ آتا ہے‘ وزارت صحت کے جس محکمے کا یہ کام ہے کہ ڈینگی سے قوم کو بچایا جائے اسے فوراً سے پیشتر وہ تمام حفاظتی انتظامات کر لینے چاہئےں کہ جن سے ڈینگی کے حملوں سے قوم کو بچایا جا سکتا ہے‘ شاید کورونا وائرس ایک لحاظ سے اس ملک کےلئے اچھا ثابت ہوجائے کیونکہ اس نے اس قوم کو اور اس ملک کے حکمرانوں کو خبردار کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے آئندہ اس ملک کو اس قسم کی وباﺅں سے بچانا ہے تو انہیں صحت کے شعبے کی طرف وہ توجہ دینا ہوگی کہ جس کی وہ متقاضی ہے‘ انہیں اب ہوش آجانا چاہئے انہیں اب پرتعیش زندگی بسر کرنے پر خرچ کرنے کے بجائے اس ملک کے عوام کی بنیادی صحت کی سہولیات کی طرف توجہ دینی چاہئے‘ اب وہ اس ملک میں سامان تعیش استعمال کرنا بند کر دیں ‘ہمیں اب بی ایم ڈبلیو‘ مرسڈیز یا دیگر بڑی بڑی گاڑیوں کی کوئی ضرورت نہیں ان کو بیرونی ممالک سے خریدنے کےلئے وسیع پیمانے پر زرمبادلہ ضائع کرنے کے بجائے۔

ہمیں ان کی جگہ ہر تحصیل کی سطح پر اچھے ہسپتال درکار ہیں جن میں انسانی زندگی بچانے کےلئے تمام مناسب طبی انتظامات موجود ہونے چاہئیں‘ہمیں یہ بالکل زیب نہیں دیتا کہ ہمارے ملک میں اتنے ہسپتال اور طبی سہولیات موجود نہ ہوں کہ جتنی ان کی ضرورت ہے اور ان کے بجائے ہم سرکاری یا نجی سطح پر محل نما بڑے بڑے دفاتر تعمیر کریں اور ان میں قیمتی ترین فانوس اور فرنیچر نصب کریں اسی طرح ہم سنگ مرمر یا دوسرے اسی قسم کے قیمتی پتھروں کا گھروں میں استعمال کیوں کریں کہ جب ہم اپنے عوام کو نہ دو وقت کا کھانا فراہم کرسکتے ہیں اور نہ طبی سہولیات اور اس بات پر ہم کیوں فخر کرتے ہیں کہ ہمارے گھر فارن میڈ اشیاءسے مزین اور لیس ہیں‘ ہمیں یاد ہے ایک مرتبہ ورلڈ بینک کا ایک وفد صدر مملکت سے ملنے ایوان صدرگیا اس کے ایک رکن نے جب ایوان صدر میں موجود قیمتی ترین صوفے اور فرنیچر کودیکھا اور اس کی نظر قیمتی فانوسوں پر پڑی تو برجستہ اس کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ اب ہمیں پتہ چلا کہ ورلڈ بینک کے قرضوں کی ایک بڑی رقم آپ کہاں صرف کرتے ہیں‘۔

یہی حال تعلیم کے شعبے کا ہے کورونا وائرس کی وبا میں ہم نے گلی گلی اور کوچہ کوچہ جہالت کا مظاہرہ دیکھا اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت کے تمام ادارے اور رہنما دن رات عوام کو نصیحت کرتے رہے کہ خدارا اس وبا سے بچنے کےلئے فلاں فلاں حفاظتی تدابیر اپنائیں مجال ہے کہ اس ملک کی اکثریت کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو‘ اس ملک کی اکثریت نے حکومت کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرا اور حفاظتی تدابیر اپنانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور یہی وجہ تھی کہ کورو نا وائرس کی وجہ سے لاتعداد لوگ موت کی وادی میں اترگئے ‘اگر قوم کا ہر فرد صحت اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتا تووہ اس وبا سے نمٹنے کےلئے مناسب اقدامات کرلیتا‘اب یہ حکام بالا کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں اگر ہم نے ایسا کردیا تو شاید ان افراد کی روحوں کو تسکین پہنچے کہ جو صحت کے شعبے میں مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اس وبا سے لقمہ اجل ہوئے یا پھر جہالت کی نذر ہوگئے۔