امن وامان

 یہ جو کراچی میں دوبارہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ چل نکلا ہے اس میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا یہ کراچی پولیس کے بس کی بات ہی نہیں کہ وہ سندھ کے اندر خصوصاً کراچی کے اندر جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کر سکے‘ یہ کام صرف رینجرز ہی کر سکتے ہیں بہتر ہوگا کہ کراچی کا نظم و نسق رینجرز کے حوالے کیا جائے اور سندھ کی صوبائی حکومت پولیس میں جو بھرتیاں کرتی ہے اس میں صرف میرٹ اور میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور کسی سیاسی شخص کی سفارش یا پرچی پر نچلی سطح پر پولیس میں بالکل بھرتیاں بند کر دی جائیں‘ آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ چند سال قبل سندھ میں افراتفری کا عالم تھا کراچی میں خصوصاً بھتہ خور بزور شمشیر دکانداروں سے پیسے وصول کرتے تھے اسی طرح کلی گلی موٹر سائیکلوں پر سوار جرائم پیشہ افراد راہگیروں کو زبردستی روک کر ان کی جیبوں سے پیسے نکال لیا کرتے تھے‘ پورے شہر میں اسلحہ کی بھرمار تھی‘ پولیس ایک خاموش تماشائی کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کی ناک کے نیچے آئے دن شہریوں کو لوٹ لیا جاتا‘ مجبور آ کراچی کے عوام کو حکومت سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ اس شہر کو فوج کے حوالے کردیں تاکہ اس کی بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورتحال کو سنبھالا دیا جا سکے اور پھر ہم نے دیکھا کہ جب سندھ کے بعض شہروں میں رینجرز نے کنٹرول سنبھالا یا بعض جگہ مقامی پولیس کی معاونت کے لئے ان کے ساتھ ساتھ گشت کرنا شروع کی تو حالات میں خاطر خواہ تبدیلی نظر آئی سندھ کی پولیس کا بیڑہ اس لئے تباہ ہوا ہے کہ اس میں 90 فیصد بھرتیاں مقامی سیاستدانوں کے کہنے پر ایک عرصہ دراز سے ہو رہی ہیں جو پولیس مین میرٹ کے بجائے سفارش پر پولیس میں بھرتی ہوا ہو اور جسے بندوق چلانا تو کجا بندوق کو مناسب طریقے سے اٹھانے کا ڈھنگ بھی نہ آتا ہو وہ بھلا جرائم پیشہ لوگوں سے کیا لڑے گا۔

 اسی طرح جب تک کراچی میں ملٹری کورٹس نے کام کیا تو ان دنوں جرائم پیشہ اور دہشت گردوں بشمول بھارتی ایجنٹوں کےخلاف مقدمات کا جلد سے جلد فیصلہ ہو رہا تھا اور ان کو قرار واقعی سزا مل رہی تھی جن سے سندھ کی انتظامی صورتحال کافی بہتر ہو گئی تھی اور وہاں کے امن وعامہ میں ایک خوشگوار تبدیلی آئی تھی ‘افسوس کہ ملٹری کورٹس کو بہت جلد ختم کردیا گیا اور اسی طرح رینجرز کو بھی واپس بلالیا گیا‘ یہ کل کی ہی بات ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ اور سندھ کے دو سابق انسپکٹر جنرلز آف پولیس کے درمیان پولیس کے معاملات پر کافی چپقلش رہی جس کے نتیجے میں ان دونوں کو زیادہ عرصے تک سندھ میں آئی جی پولیس رہنے نہ دیا گیا‘ ان کا یہی موقف تھا کہ سندھ کی پولیس خصوصاً نچلی سطح کی پولیس کی بھرتی میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہ کی جائے تاکہ مروجہ معیار کے مطابق سندھ کے لئے پولیس بھرتی کی جائے ‘جزا و سزا کے بغیر کسی بھی معاشرے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوراً سے پیشتر کراچی میں باقی ماندہ بھارتی ایجنٹوں کی صفائی کے لئے ملٹری کورٹس کا قیام کم از کم دو سالوں کے لئے عمل میں لایا جائے اس محاورے میں سو فیصد حقیقت ہے کہ جو لوگ بگڑے ہوں ان کا علاج صرف ڈنڈے کے ساتھ ہی ممکن ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھارتی خفیہ ایجنسی را نے ایک مرتبہ پھر کراچی میں تخریبی کاروائیاں شروع کروا دی ہیں تو دوسری جانب سابقہ فاٹا کے علاقے میں بھی اب جو دہشت گردی کی تازہ لہر اٹھی ہے اس میں بھی اسی کا ہاتھ نظر آتا ہے۔