کفایت شعاری کادرس

 اندرون سندھ بسنے والے معاشی اور مالی طور پر انتہائی پسماندہ لوگ سخت غربت کا شکار ہیں ان کی اوسط عمر ملک میں بسنے والے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کافی کم ہے بیماری کی حالت میں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنا مناسب علاج کروا سکیں آپ نے اکثر سنا اور پڑھا ہوگا کہ وہاں کے ہسپتالوں میں کتوں کے کاٹے ہوئے افراد کو جو ویکسین لگائی جاتی ہے اس کی عدم دستیابی سے ہر سال سگ گزیدگی سے کئی افراد یا تو پاگل ہو جاتے ہیں اور یا پھر مر جاتے ہیں وہاں کے لوگوں کو پینے کا شفاف پانی تک میسر نہیں جس سے ان میں پیٹ کی بیماریاں کافی عام ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں سندھ میں عرصہ دراز سے ایک ہی سیاسی پارٹی کی حکومت ہے اور یہ وہ سیاسی پارٹی ہے جس کا ہمیشہ سے یہ نعرہ رہا ہے ،روٹی کپڑا اور مکان اگلے روزاخبارات میں یہ خبر پڑھ کر ہمیں رونا بھی آیا اور ہنسنا بھی رونا اس لیے کہ حکومتِ سندھ نے اپنے وی وی آئی پی لو گوں کے استعمال کے لیے غیرملکی مہنگی ترین لگژری گاڑیاں خریدنے کے لئے بجٹ میں چار ارب روپے کی رقم مختص کی تھی اور خوشی سے ہم مسکرائے اس لیے کہ عدالت عظمیٰ نے سندھ حکومت کے کان کھینچ کر اسے منع کر دیا کہ جو رقم اس قسم کی گاڑیوں کی خریداری کے لیے مختص ہے۔

 اسے صوبے میں ہسپتالوں اور تعلیمی نظام کو ٹھیک کرنے پر خرچ کیا جائے یہ خبر پڑھ کر ہمیں سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کا اسی قسم کا ایک فیصلہ بھی یاد آیا جب انہوں نے بھارت کے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو ان کی وزارت خزانہ کے سیکرٹری نے ان کو ایک سمری بھجوائی جس میں یہ تجویز دی گئی کہ وزیراعظم کے استعمال کے لیے ایک نئی بی ایم ڈبلیو گاڑی کی خریداری کی اجازت دی جائے منموہن سنگھ نے اس سمری پر لکھا کہ پہلے تو نئی گاڑی کی خریداری کا کوئی جواز نہیں بنتا موجود پرانی گاڑی سے کام چلایا جا سکتا ہے اگر واقعی نئی گاڑی لینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے تو بی ایم ڈبلیو جیسی مہنگی ترین گاڑی کہ جس کی قیمت کروڑوں روپے بنتی ہے اسے خریدنے کی بجائے بھارت کے اندر بننے والی ایمبیسڈر نامی گاڑی کو کیوں نہ خریداجائے کہ جو پچیس لاکھ روپے کے اندر اندر خریدی جا سکتی ہے حلوائی کی دکان اور دادا جی کا فاتحہ کے مصداق ہمارے اکثر حکمرانوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جب بھی وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو بہتی گنگا میں نہاتے ہیں اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہتا ہے قناعت اور کفایت شعاری جیسے الفاظ سے وہ آشنا نہیں ملکہ الزبتھ کے شوہر پرنس فلپس بڑے منھ پھٹ انسان ہیں ۔

ایک مرتبہ وہ پاکستان کے دورے کے دوران جب اسلام آباد کے ائیرپورٹ پر اترے تو ان کے استقبال کے لئے ہمارے فارن آفس کے پروٹوکول والے آٹھ دروازوں والی لمبی چوڑی بڑی گاڑی لے گئے انہوں نے اس گاڑی کی طرف بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھنے کے بعد پروٹوکول افسر کو طنزیہ یہ جملہ کہا آپ اب بھی اتنی پرتعیش گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ہم نے تو عرصہ دراز سے اس قسم کی گاڑیوں کے استعمال کو ترک کردیا ہے اس ملک میں اب تو عرصہ دراز سے حکمرانوں کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ ہر چار پانچ سال بعد جب کوئی نئی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو اس کے وزیروں کے لیے نئے ماڈل کی سرکاری گاڑیاں خرید لی جاتی ہیں اور ان کا پھر جس بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کفایت شعاری کی پالیسی کو اپنا کر ہی موجودہ حکومت نے عوام کے دل میں جگہ بنائی تھی اور اس پالیسی پر کاربند رہ کر ہی عوامی فلاح کے کام سرانجام دیئے جا سکتے ہیں ایسے میں اگر عدلیہ نے سندھ حکومت کے کان کھینچے ہیں تو یہ ایک مناسب اقدام ہے کہ جس کے دوسرے صوبوں کے حکام پر بھی مثبت اثر پڑے گا موجودہ حالات میں کہ جب ملک سخت ترین معاشی مشکلات کا شکار ہے اور کاروبار زندگی وبائی مرض کے باعث معطل ہے تو حکومت کے عوام دوست اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جس میں اولین کام اشیاءضرورت کی کم قیمت پر دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔