بڑھتے مسائل اورہماری غیرسنجیدگی

 اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں پاکستان جیسے پسماندہ غریب ملک کے عوام کی بنیادی ضروریات میں جو چیزیں شامل ہیں وہ ہیں دو وقت کی باعزت روٹی کا حصول‘ سر پر اپنی چھت ‘بیماری کی صورت میں ہسپتالوں میں مفت علاج معالجے کی سہولت ‘ با عزت روزگار کے وافر ذرائع اور سفر کیلئے مناسب پبلک ٹرانسپورٹ اور اپنے بال بچوں کیلئے مناسب تعلیمی نظام آئین پاکستان حکومت پر یہ لازم کرتا ہے کہ وہ عوام کو یہ بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے اور اس ملک کا ہر فرد بھی ان بنیادی ضروریات زندگی کا ایک عرصہ دراز سے متلاشی ہے ان بنیادی ضروریات کو حاصل کرنے کےلئے اس ملک کے غریب عوام ایک لمبے عرصے سے سر گر دان ہیں اس ملک کے جتنے بھی حکمران انیس سو اڑتالیس کے بعد برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے اس ملک کی ترقی کیلئے پانچ سالہ منصوبے بناتے وقت مندرجہ بالا تر جیحات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اس ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ‘خواندگی کی شرح بڑھ نہ سکی‘ عام آدمی کو سرکاری ہسپتالوں میں بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کی بنیادی ضروریات میسر نہیں‘ پرائیویٹ سیکٹر میں جو ٹرانسپورٹ چلتی ہے اس کے مالکان مسافروں کو ویگنوں اور بسوں میں ایسے بٹھاتے ہیں جیسے کہ وہ مال مویشی ہوں روزگار کے مواقع دن بدن عنقا ہوتے جا رہے ہیں ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی بے پناہ آبادی بھی ہے ‘ فی الحال تو ہمارے حکمران اس مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے کہ جتنی توجہ کا یہ مسئلہ مستحق ہے۔

 اگر اسی شرح سے ہماری آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو بھلے ہم زندگی کے ہر شعبے میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لیں بڑھتی ہوئی آبادی ان سب کو چاٹ جائے گی انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان نے سب سے پہلے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے فیملی پلاننگ کا ایک نظام وضع کیا تھا ہو سکتا ہے کئی لوگوں کو اس ملٹری ڈکٹیٹر سے کئی معاملات میں اختلاف ہو پر یہ حقیقت ہے کہ بعض معاملات میں انہوں نے جس دور اندیشی کا 1960 کی دہائی میں یعنی آج سے ساٹھ سال پہلے مظاہرہ کیا تھا وہ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے نہیں کیا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے تحاشہ آبادی کی وجہ سے وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور ملک کے تمام شہریوں کو یکساں اور معیاری بنیادی ضروریات کی فراہمی مشکل ہو گئی ہے‘جس کا حل آبادی کو مناسب حدود میں رکھنا ہے۔

ہمارا ایک بڑا مسئلہ ملک میں پانی کی کمی کے بحران کا بھی ہے اگر ایوب خان کے بعد آنے والے حکمران بھی انہی کی طرح اس ملک میں میں ڈیم بناتے جاتے تو شاید آج یہ ملک پانی کے بحران کا شکار نہ ہوتا آج اس ملک کی حالت یہ ہے کہ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ملک کو وہ پرانے ریاستی ادارے چلا رہے ہیں کہ جن کو انتظامیہ عدلیہ مقننہ یا میڈیا کے نام سے پکارا جاتا ہے آج ان سب پر مختلف اقسام کے مافیا حاوی ہو چکے ہیں جیسا کہ شوگر مافیا پیٹرول مافیا فلور ملز مافیا وغیرہ وغیرہ یہ مافیاز شتربے مھار کی طرح آزاد ہیں اور ان پر ریاستی اداروں کی گرفت مزور پڑ چکی ہے آج اس ملک میں حکومتی رٹ نامی میں کوئی شے کم ہی نظر آرہی ہے یہ بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ یہاں پر آپ پیسے کے زورسے ہر جائز و ناجائز کام کروا سکتے ہیں بھلے وہ کسی تعلیمی ادارے کی ڈگری کا حصول ہو یا جہاز اڑانے کےلئے لائسنس کی طلب‘ہر شعبے میں ناجائز ذرائع استعمال کئے جاسکتے ہیں اور جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ملک کے مسائل بڑھتے جائیں گے‘ جن کو حل کرنے کیلئے پھر غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوگی‘ اسلئے جلداز جلد ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔