بھارت کی نئی شازش

بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے اندر دہشت گردی کا تندور گرم کر دیا ہے اس کی تازہ ترین مثال کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر گزشتہ اتوار کوہونے والا حملہ ہے جسے وطن عزیز کے امن عامہ کو قائم رکھنے والے اداروں نے بروقت مداخلت کرکے تباہی پھیلانے سے روک دیا اور ان پانچ دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا جنہوں نے یہ گھناو¿نا جرم کرنے کی کوشش کی تھی اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ بھارت سندھ اور بلوچستان کے اندر بعض عناصر کو گمراہ کر کے انہیں اپنا آلہ کار بنا رہا ہے اور ان کے ذریعے ان دو صوبوں کے امن کو تاراج کرنے کی کوشش کر رہا ہے ہمارے فارن آفس کواب ذرا متحرک ہونا چاہئے اور بین الاقوامی سفارتی اور میڈیا کی سطح پر ایک جارحانہ قسم کی مہم چلانی چاہیے جس میں دنیا کے رائے عامہ ہموار کرنے والے اداروں کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ مودی سرکار کی اصلیت کو جاننے کی کوشش کریں وہ یہ نہ بھولیں کہ بھارتی جنتا پارٹی دراصل RSS کی سیاسی شاخ ہے اور ہٹلر آر ایس ایس کا رول ماڈل ہے ‘بھارتی جنتا پارٹی کے کارندے اپنے سیاسی حریفوں سے نمٹنے کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جو ہٹلر کی نازی پارٹی کے اراکین نازی پارٹی کے حریفوں کے خلاف استعمال کرتے تھے جس طرح ہٹلر یورپ کے اندر کسی دوسرے ملک اور قوم اور خصوصا اپنے پاس پڑوس میں رہنے والے دیگر چھوٹے ممالک کو کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔

 بالکل اسی طرح پاکستان ہوکہ نیپال بھوٹان ہو کہ برما یا بنگلہ دیش بھارت ان سب کو بزور شمشیرزیر کرنا چاہتا ہے آج صرف پاکستان ہی بھارت سے گلہ مند نہیں نیپال بھوٹان اور بنگلہ دیش کا بھی بھارت سے اس کی پالیسیوں کی وجہ سے دل میلا ہونے لگا ہے۔کراچی کی پاکستان کی معیشت میں وہی حیثیت ہے جو کسی انسان کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے آج اگر ایک طرف وطن عزیز کے دشمن اس ہڈی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں تو دوسری جانب سندھ کی صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی زیادہ تسلی بخش نہیں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا یہ بیان اس ملک کے محب وطن عناصر کو اچھا نہیں لگا جس میں انہوں نے دھمکی دی کہ وہ مرکزی حکومت کی طرف سے صوبے میں ٹیکسوں کی ریکوری نہیں کریں گے بعض سیاسی عناصر تو اس دھمکی کو مرکز کے خلاف کھلی بغاوت سے تعبیر کر رہے ہیں اگر سندھ کی صوبائی حکومت کا مستقبل میں مرکز کے ساتھ میل ملاپ درست نہیں ہوتا تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ سندھ میں کہیں گورنرراج نہ نافذ کردیا جائے دراصل سندھ مختلف سیاسی دھڑوں کے چوں چوں کا مربا ہے ان میں سے ہر ایک دھڑا دوسرے دھڑے کو نیچا دکھانے کےلئے اس کے خلاف مرکز میں جا کر وہاں بیٹھے ارباب اقتدار کے کان بھرتا ہے اور اگر مرکز اور سندھ میں دو مختلف پارٹیوں کی حکومت ہو تو ان دونوں میں اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ایک بڑی سیاسی خلیج پیدا کر دیتا ہے۔سندھ میں حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے مرکز اور سندھ کی حکومت میں افہام و تفہیم کی بڑی ضرورت ہے اس میں دونوں پارٹیوں یعنی پی ٹی آئی اور پی پی پی کا فائدہ ہے ۔