سیاسی فعالیت کی راہ پر

عوامی نیشنل پارٹی کی موجودہ صوبائی قیادت کی طرف سے پارٹی اوراس کی ذیلی تنظیموں کو سیاسی فعالیت کی راہ پر ڈالنے کے لئے اقدامات کاسلسلہ جاری ہے‘ عوامی نیشنل پارٹی کاشمار صوبہ کی اہم ترین سیاسی قوتوں میں ہوتاہے اگر اس کی پیشرو جماعتوں کی تاریخ دیکھی جائے تو اس تناظر میں اے این پی بلاشبہ ملک کی دوسری قدیم ترین جماعت ہے ‘اس سلسلہ میں مسلم لیگ پہلے نمبر پرہے‘ باچاخان کی طرف سے انگریز وں کے خلاف پرامن سیاسی جدوجہد اور عظیم اصلاحی تحریک کے ذریعہ شروع کیاجانے والا سفر بعدازاں نیشنل عوامی پارٹی اور پھرنیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے بھی جاری رہاتھا‘ 1986ءمیں عوامی نیشنل پارٹی قائم کی گئی اور ولی خان ا س کے پہلے سربراہ مقررہوئے جنہوں نے پھر اگلے چار سال تک اس جماعت کی قیادت کی ‘مگر جب 1990ءکے انتخابا ت میں شکست ہوئی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نیا باب رقم کرتے ہوئے عملی سیاست سے ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی تاہم ان کو پارٹی کارہبر تحریک مقرر کیاگیا اورپھر اپنی وفات تک وہ اس منصب پر فائر رہے‘ ان کی وفات کے ساتھ ہی رہبر کاعہدہ بھی ختم کردیاگیا عبدالولی خان کے بعد دو مرتبہ اجمل خٹک بھی اے این پی کے مرکزی صدررہے اور ان کے بعد سے اب تک اسفندیارولی خان پارٹی کے مرکزی سربراہ منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں ‘اسفندیارولی خان اس لحاظ سے انفرادی خصوصیت کے حامل ہیں کہ وہ ملک کی کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے واحدایسے سربراہ ہیں کہ جو صوبائی اسمبلی ،قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرچکے ہیں عوامی نیشنل پارٹی کی پیشرو جماعت نیشنل عوامی پارٹی 1970ءکے الیکشن میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا)اوربلوچستان میں سب سے مقبول اور مضبوط سیاسی قوت بن کرابھری اوربعد ازاں جے یو آئی کے ساتھ مل کر صوبہ میں حکومت بھی بنائی تاہم وزارت اعلیٰ کامنصب اکثریت رکھنے کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی نے جے یو آئی کو دے دیا تھا بعدازاں 1988ءکے الیکشن ہوئے تو اے این پی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کرصوبائی حکومت تشکیل دی لیکن یہ اتحاد سال بھر ہی چل سکااورپھر گورنر کی نامزدگی کے معاملہ پر اے این پی نے پی پی پی سے راہیں جد اکرتے ہوئے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کااعلان کیا‘ 1990ءمیں اے این پی نے آئی جے آئی کے ساتھ اتحاد کرلیا‘ جو پھر اگلے دس سال تک جاری رہا‘ چنانچہ 1990ءکے الیکشن میں آئی جے آئی کے ساتھ مل کرحصہ لیا اور پھر صوبہ میں اس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی‘ 1993ءمیں بھی اے این پی اور آئی جے آئی نے مشترکہ امید وار کھڑے کئے اور اکثریت حاصل کی ایک بارپھر دونوں جماعتوں نے حکومت قائم کی تاہم یہ حکومت جلد ہی عدم اعتماد کی نذر ہوگئی تاہم 1997ءمیں پھر دونوں قوتوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے مخلوط حکومت قائم کی اورسردار مہتاب احمد خان وزیر اعلیٰ بن گئے تاہم اگلے سال ہی صوبہ کے نام کی تبدیلی اورکالاباغ ڈیم کے معاملہ پر اے این پی نے صوبائی حکومت سے الگ ہونے کے ساتھ ساتھ آئی جے آئی سے دس سالہ اتحاد بھی ختم کردیا‘ 2002ءکے انتخابات ہوئے تو اے این پی نے ننانوے میں سے آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی اوراپوزیشن کاحصہ بنی‘ اس دوران پارٹی نے نئی صف بند ی کرلی تھی‘ روٹھے ہوئے رہنماﺅں کو منانے کی مہم شروع کی گئی جو کامیابی سے ہمکنارہوئی اورپھرجب 2008ءکے انتخابات ہوئے تو اے این پی واحد بڑی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی‘ اس سے قبل اے این پی پانچ بار حکومت سازی کے موقع پر وزارت اعلیٰ کے منصب کی قربانی دے چکی تھی چنانچہ اس بار اس نے وزارت اعلیٰ کامنصب اپنے پاس رکھنے کافیصلہ کیااورپھر حیدرہوتی صوبہ کے پانچ سال تک وزیر اعلیٰ رہے‘ یہ صوبہ کی تاریخ کی پہلی حکومت ثابت ہوئی جس نے آئینی مدت پوری کی ‘اس دوران پارٹی نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صوبہ کے لئے نام کے حصول کامرحلہ بھی کامیابی کے ساتھ طے کیا مگر جب 2013ءمیں انتخابات ہوئے تو اے این پی نے تاریخ کی سب سے بڑی شکست کاسامنا کیا قومی اسمبلی میں محض ایک اورصوبائی اسمبلی میں بھی انتہائی کم نشستیں حاصل کیں ‘بعدازاں 2018ءکے انتخابات میں بھی کم وبیش یہی صورت حال رہی ‘البتہ اس بار پارٹی نے صوبائی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرلیاتھا‘ پے درپے دو شکستوں کے بعد یہ امر طے تھاکہ اب صوبائی قیادت میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے چنانچہ جب گزشتہ سال ماہ اپریل میں انٹراپارٹی انتخابات ہوئے تو قیادت کی تبدیلی عمل میں آگئی ۔ ان انتخابات میں باچا خان کے پڑ پوتے ،ولی خان کے پوتے اور اسفندیارولی کے صاحبزادے ایمل ولی خان بلامقابلہ پارٹی کے نئے صوبائی صدر منتخب ہوگئے ‘ ان کے مدمقابل کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے گئے تھے جس کے بعد ان کے بلامقابلہ منتخب ہونے کی راہ ہموارہوئی یوں طویل عرصہ کے بعد اے این پی کی صوبائی قیادت باچاخان کے گھرانے کو مل گئی بیگم نسیم ولی خان کے بعد سے ولی باغ کاصوبائی امور میں دخل کم ہوتا چلاگیا اس دوران کچھ عرصہ کے لئے بشیربلور ،پھرافراسیاب خٹک اور اس کے بعد حید ر ہوتی دودو مرتبہ پارٹی کے صوبائی صدور منتخب ہوئے جب حید رہوتی پانچ سال حکومت کے بعد فارغ ہورہے تھے۔

 تو افراسیاب خٹک فخریہ کہاکرتے تھے کہ پانچ سالہ دور حکومت کے دوران پارٹی کو حید ر ہوتی کی شکل میں ایک نئی اورنوجوان قیاد ت مل گئی ہے اوریہی پانچ سالہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے جہاں تک حیدرہوتی کاتعلق ہے تو نوآموز ہونے کے باوجود کامیاب وزیر اعلیٰ ثابت ہوئے تھے جب بشیر بلور جیسے سینئر اور تجربہ کار سیاسی رہنما کو نظر انداز کرکے پارٹی نے امیرحیدر ہوتی کو وزیر اعلیٰ نامزد کیاتو ناقدین نے اس فیصلہ کو سیاسی خودکشی کے مترادف قراردیتے ہوئے کہنا شروع کیاکہ حکومت چلانا حیدرہوتی کے بس کی بات نہیں‘ مگر ا نہوںنے پانچ سال کامیابی کے ساتھ حکومت کی اور اس دوران ہر معاملہ پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی حکمت عملی اختیار کئے رکھی جس کی وجہ سے اپوزیشن کی طرف سے ٹف ٹائم بھی کم سے کم ہی ملا‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے خاتمہ کے بعد جب وہ صوبائی صدر بنے تو رفتہ رفتہ خود کو مردان تک محدود کرناشروع کردیا‘ باچا خان مرکز کے متبادل صوبائی دفتر مردان میں غیر اعلانیہ طورپر کھل گیا جب کبھی مردان سے فرصت ملتی تو حیدرہوتی باچا خان مرکزکاچکربھی لگا لیتے اگرچہ مردان کو زیادہ وقت دینا ان کی سیاسی اورانتخابی مجبور ی تھی کیونکہ اپنے قومی و صوبائی حلقو ں کو انہوں نے محفوظ بناناتھا مگر اس سے جو تاثر پارٹی کی صفوں میں پھیلناشروع ہوا اس نے کارکنوں کو یقیناً غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار کرنا شروع کیا یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ عام انتخابات سے قبل حیدرہوتی نے پارٹی کو صوبہ بھر میں منظم اور کارکنوں کو متحر ک کرنے کے لئے حددرجہ محنت کی اور الیکشن سے کچھ عرصہ قبل ہی پورے صوبہ کا دورہ کرتے ہوئے تمام اضلاع میں ورکرز کنونشن کی صورت میں کارکنو ں کے اجتماعات سے خطا ب کیامگر یہ بھی حقیقت رہی کہ اس تمام عرصہ میں انہوں نے پشاور اور باچا خان مرکز کو بہت ہی کم وقت دیا ‘اسی
دوران ان کے او رایمل ولی کے اختلافات کی خبر یں بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہیں مگر پارٹی نے ہمیشہ ان خبرو ں کی تردید ہی کی ‘حالیہ عام انتخابات سے قبل ہی جب ایمل ولی خان غیر معمولی طورپرسرگرم اور متحر ک ہونے لگے تو سیاسی بزرجمہر اسی وقت سے اسے قیادت کی تبدیلی سے تعبیر کرتے رہے‘ پھر جب انہو ں نے باچا خان ٹرسٹ کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کربعض بنیادی نوعیت کے فیصلے کئے تو صور تحال واضح ہوتی چلی گئی‘ بعض حلقو ں کایہ بھی کہناتھاکہ پارٹی کے صوبائی امور میں جب تک ولی باغ پھر سے متحر ک نہیں ہوگا پارٹی کی مشکلات بڑھتی چلی جائیں گی اس لئے پارٹی کی مزید فعالیت کے لئے ان کے نزدیک فیصلو ں کامرکز پھر سے ولی باغ کو بنانا ضرور ی ہے اورگزشتہ سال اے این پی کے ان حلقو ں کی دیرینہ خواہش پور ی ہوہی گئی ۔ ایمل ولی کی صورت میں باچاخان خانوادے کی چوتھی نسل اب قیادت کررہی ہے اسی طرح سردار حسین بابک صوبائی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے جو اس سے قبل مسلسل تین بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب چلے آرہے ہیں ‘انہوں نے 2013ءکے عام انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی تھی حالانکہ ان انتخابات میں اے این پی کے تمام صوبائی وزراءاپنی اپنی نشستیں ہار گئے تھے‘ سرداربابک ا س وقت صوبائی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورڈپٹی اپوزیشن لیڈر ہیں جہا ں تک انٹر پارٹی الیکشن کاتعلق ہے تو اے این پی میں ہرچارسال بعد تواتر کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کامضبوط کلچر موجود رہا ہے اس بار رکنیت فیس میں اضافہ کے باوجود پارٹی نے نو لاکھ رکنیت سازی کاہدف کامیابی کے ساتھ حاصل کیا۔ایمل ولی خان نے ایک سال انتظار کرنے کے بعد آخرکار بنیادی نوعیت کے فیصلے شروع کردیئے ہیں انہوں نے ایک سال تک خاموشی سے جائزہ لینے کے بعد تمام غیر متحر ک اورغیر فعال عہدیداروں سے گلو خلاصی کے لئے مہم شروع کردی اور اس سلسلہ میں باعزت راستہ اختیار کرتے ہوئے غیر فعال عہدیداروں کو ازخود ہی مستعفی ہونے کاموقع فراہم کیا‘ یوں بڑی تعداد میں پارٹی کے عہدیداردھڑادھڑ مستعفی ہونے لگے جس کے ساتھ ہی فعال ساتھیوں کو آگے لانے کاسلسلہ شروع کردیاگیاہے ساتھ ہی پارٹی کی ذیلی تنظیمیں بھی فعال کی جارہی ہیں اس سلسلہ میں ایمل ولی خان کی طرف سے خدائی خدمتگار تنظیم کوفعال کرنے کافیصلہ سب سے اہم قراردیاجارہاہے ۔۔

اس سلسلے میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و سیکرٹری باچا خان ٹرسٹ ایمل ولی خان نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کے بعد سابق ڈی جی ریسکیو 1122 خیبرپختونخوا ڈاکٹر شمس سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان ٹرسٹ پھر سے خدائی خدمتگار تنظیم کی شکل میں باچا خان کے خدائی خدمتگاروں کی تنظیم کو فعال کررہی ہے۔خدائی خدمتگار تنظیم ملک بھر میں ہنگامی حالات، حادثات، قدرتی آفات اور دیگر مشکلات کے موقع پر عوامی خدمت سرانجام دیگی ،خیبرپختونخوا سے تنظیم کا آغاز کرکے بعد میں اسے ملک بھر میں پھیلایا جائیگا ۔ اس سلسلہ میں ٹیسٹ کیس کے طور پر پہلی فرصت میں خیبرپختونخوا کے ایک ضلع کا انتخاب کیا جائیگا ،جہاں پر تنظیم کو فعال کرنے کے بعد اسے صوبہ بھر اور اسکے بعد پورے ملک تک وسعت دی جائیگی۔ خدائی خدمتگار سنٹر میں ایمبولینس ،فائیر بریگیڈ اور کشتیوں کی سہولت فراہم کی جائیگی ،تمام اضلاع کے خدائی خدمتگار سنٹرز میں سٹیٹ آف دی آرٹ ایمرجنسی بھی بنائی جائیگی سابق ڈی جی ہیلتھ و ریسکیو 1122ڈاکٹر شمس کو خدائی خدمتگار تنظیم کا ڈائریکٹر تعینات کیا جبکہ خدائی خدمتگار تنظیم کے بورڈ میں امریکہ سے ڈاکٹر ارشد ریحان،انگلینڈ سے ڈاکٹر خلیل نواز اور سعودی عرب سے ڈاکٹر مزمل شاہ بھی شامل ہونگے ‘جبکہ خدائی خدمتگار تنظیم کے بورڈ میں مختلف اداروں سے اعزازی ممبران کا انتخاب بھی کیا جائیگا۔ اسی طرح باچا خان یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر و ممتاز ماہرتعلیم ڈاکٹر فضل الرحیم مروت باچا خان ٹرسٹ ریسرچ سنٹر کے نئے ڈائریکٹر مقرر کردیئے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں باچا خان ٹرسٹ کے مرکزی سیکرٹریٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ڈاکٹر فضل الرحیم مروت کی تعلیمی و قومی خدمات کو دیکھتے ہوئے باچا خان ٹرسٹ کی طرف سے ڈائریکٹر باچا خان ٹرسٹ ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر کے طور پر تعینات کیا جاتاہے۔ واضح رہے کہ باچا خان ٹرسٹ ریسرچ سنٹر ہر سال تحقیقی مقالے و کتب شائع کرتاہے‘رواں سال بھی باچا خان ٹرسٹ ریسرچ سنٹر کے پلیٹ فارم سے 12کتابیں شائع کی جاچکی ہیں،جس میں خان عبد الغفار خان باچا خان کی پشتو زبان میں آب بیتی،خان عبد الولی خان کی چارجلدوں پرمشتمل باچا خان اور خدائی خدمتگار تحریک کی کتاب بھی شامل ہے ‘ باچا خان ٹرسٹ نے خدائی خدمتگار تنظیم کی فعالیت کے بعد باچا خان ہیلتھ فاونڈیشن کے قیام کا فیصلہ بھی کیا ۔ دیرینہ خدائی خدمتگار امیر زادہ خان کے فرزند و معروف معالج ڈاکٹر شوکت امیرزادہ کوہیلتھ فاﺅنڈیشن کاسربراہ مقرر کیاگیاہے باچا خان ٹرسٹ کے زیراہتمام باچا خان ہیلتھ فاونڈیشن کا بنیادی مقصد صوبہ بھر میں صحت کے بنیادی یونٹس کا قیام عمل میں لانا ہے۔دوسرے مرحلے میں باچا خان ہیلتھ فاونڈیشن پسماندہ اضلاع میں ہسپتال بھی قائم کریگی‘ اس کے ساتھ ساتھ باچا خان ہیلتھ فاونڈیشن بلڈ کیمپس کے ساتھ ساتھ دیگر کیمپس بھی وقتاً فوقتاً منعقد کریگی اسی طرح ایک اور اہم فیصلہ کرتے ہوئے صدرالدین کو فارغ کرتے ہوئے پارٹی نے پشاور سے منتخب ہونے والی رکن صوبائی اسمبلی ثمرہارون بلور کو سیکرٹری اطلاعات بناکر پارٹی کاصوبائی ترجمان مقرر کردیا گیاہے ثمر بلور پشاور کے معروف سیاسی خانوادے بلور فیملی سے تعلق رکھتی ہیں‘ ا ے این پی کی طرف سے ثمر بلور کی نامزدگی نہ صرف بلور خاندان کی قربانیوں کااعتراف ہے بلکہ اس کے ذریعہ پارٹی کاروشن چہرہ بھی سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے گویاگزشتہ دوماہ سے موجودہ صوبائی صدر نے سیاسی اوررفاہی فعالیت کے لئے اقدامات کاجوسلسلہ شروع کیاہے اس کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ عنقریب جب پارٹی عملی سیاسی سرگرمیوں کاآغاز کرے گی تو ان فیصلوں کے سیاسی ثمرات ضرور سامنے آئیں گے ۔