سیاستدان اورعدم برداشت

ماضی میں ہم بارہا دیکھ چکے ہیں کہ جمہوری ادوار میں سیاسی مخالفت کو ذاتیات تک لے جاکر سیاسی مخالفین کو غداری کی اسناد سے نوازا جاتارہاہے فوجی حکومتوں پر سیاسی آزادیاں سلب کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں ظاہرہے کہ فوجی حکومتوں میں سیاسی سرگرمیاں یقینا محدود کی جاتی ہیں مگر جب جمہوری حکومتوں کاریکارڈ دیکھتے ہیں تو یہاں بھی صورت حال کچھ زیادہ مثالی دکھائی نہیں دیتی صرف چند بڑی مثالوں پر اکتفا کریں گے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں رونما ہونے والا سانحہ لیاقت باغ یقینا اپوزیشن جماعتوں کو اب بھی یاد ہوگا جب حزب اختلاف کے جلسے پر براہ راست فائرنگ کردی گئی تھی اس کے بعد کی بات کریں تو یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے ابتدائی دن تھے ¾ملعون سلمان رشدی نے توہین آمیز مواد پر مشتمل شیطانی کتاب لکھی تھی اس کے خلاف اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کی کال دی ہوئی تھی بارہ فروری 1989ءکو احتجاجی مظاہرہ ہوا جس کی قیادت نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر رہنما کررہے تھے امریکی سفارتخانے کی طرف جانے کے معاملہ پر تصاد م ہوا اورپولیس نے فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں پانچ افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے یہ سب کچھ ملک میں طویل جدوجہد کے بعد بحال ہونے والے جمہوری دور میں ہوا تھا وقت کاپہیہ گھومتارہا اورپھر 1993ءآگیا جب پیپلز پارٹی نے نوازشریف حکومت پرکرپشن کے الزامات کے تحت لانگ مارچ شروع کیاہواتھا ¾اسلام آباد میں پی پی پی کے جلوس پر بدترین لاٹھی چارج ہوا جس میں خود نصرت بھٹو بھی زخمی ہوئی تھیں پھربے نظیر بھٹوکے دوسرے دور حکومت میں جب مسلم لیگ ن نے تحریک نجات کااعلان کیا تو ان کے کارکنوں سے جیلیں بھردی گئی تھیں میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی یہ صورت حال رہی مسلم لیگ ق کے دور میںجسٹس افتخار محمد چوہدری کے لئے تحریک چلائی گئی تو پھر سے گرفتاریوں کاسیزن شروع ہوا اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن تو ابھی کل ہی کی بات ہے مقصد کہنے کایہ ہے کہ نجانے کیوں سیاسی جماعتیں جب برسراقتدار ّآجاتی ہیں تو پھر جمہوریت کے سارے درس ان کے دل ودماغ سے محو ہوجاتے ہیں سیاسی جلسے جلوسوں پر پابندی یقینا فاشزم کی نشانی ہے مگرہماری ہر سیاسی جماعت کادامن فاشزم کے چھینٹوں سے پھر کسی نہ کسی حد تک داغدار دکھائی دیتاہے ان دنوں پی ڈی ایم کے پلیٹ فار م سے دس سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف تحریک کااعلان کررکھاہے اور پہلا جلسہ گوجرانوالہ میں ہوچکاہے اس تحریک کاکیانتیجہ نکلتاہے اس حوالہ سے پیشنگوئی سے قطع نظر یہ کہناضروری ہے کہ آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجا ج کاحق اپوزیشن کو حاصل ہے اور یہ حق اس سے کوئی چھین سکتاہے نہ ہی چھیننا چاہئے کچھ عرصہ قبل جے یو آئی اسلام آباد میں آزادی دھرنا دے چکی ہے اس دوران دونو ں طرف سے سیاسی بلوغت کامظاہر ہ کرتے ہوئے کوئی بھی ناپسندید ہ قد م اٹھانے سے گریز کیاگیا اوریہی حقیقی جمہوریت کاحسن ہے سیاسی جماعتیں فوجی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ماضی میں سیاسی حکمرانوں کے خلاف بھی میدان گرم کرتی رہی ہیں صرف 1988ءسے لے کر 1999ءکے گیارہ سال کے دوران پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادیوں نے مسلم لیگ ن کے خلاف دو مرتبہ تحریک چلائی اور میاں نواز شریف بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے خلاف بھرپور طریقے سے میدان میںرہے ہیں دونوں جماعتوںنے منتخب حکومتوں کو مدت پوری کرنے نہیںدی اور اس گیارہ سال کے عرصہ میں قوم کو چار بار الیکشن کے مراحل سے گزرنا پڑا اورنتیجہ آخرکار جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاءکی صورت میں نکلا اس کے بعد خوش قسمتی سے تین اسمبلیوں نے اپنی میعاد تو پوری کی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت میں پی ٹی آئی نے میدان گرم کئے رکھا اور اب پی ٹی آئی کے خلاف جے یو آئی اوردیگر جماعتیں روز اول سے سرگرم عمل ہیں لگتاہے کہ سیاسی عدم برداشت کے نئے دور کاآغاز ہوچکاہے اپوزیشن حکومت کو سکیورٹی رسک قراردینے پر تلی ہے تو حکومت کاسارا زور تمام اپوزیشن کو چور ڈاکو قراردینے پر مرکوز ہے اوریوں حقیقی عوامی مسائل پس پردہ چلے گئے ہیں حکومتی اور اپوزیشن ساری سیاسی جماعتوں کو اب تورولز آف گیم طے کرنے چاہئیں ایسانہ ہوکہ پھر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔