ممکنہ پانی کابحران

 یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ شہروں کے ریائشی علاقوں میں واقع جن گھروں میں میونسپل کمیٹی یا میونسپل کارپوریشن پانی سپلائی کرتی تو وہ پانی اتنا صاف اور شفاف ہوتا کہ دیگر کاموں کے علاوہ وہ پینے کے لئے بھی استعمال ہوا کرتا تھا ‘اس کے پینے سے پیٹ کی بیماریاں پیدا ہونے کا کوئی خطرہ نہ تھا ‘یہ تو وقت کے ساتھ میونسپل اداروں کے متعلقہ عملے کی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے جب گھروں کو زیر زمین شفاف پانی سپلائی کرنے والی پائپ لائنوں اور سیوریج کی لائن آپس میں خلط ملط ہونے لگی تو لوگوں کا میونسپل کمیٹی کے نلکوں سے آنے والے پانی پر اعتبار ختم ہو گیا ‘ویسے تو صاحب حیثیت لوگ اس زمانے میں بھی منرل واٹر استعمال کیا کرتے تھے کہ جب ہماری میونسپل کمیٹیوں سے صارفین کو صاف ستھرا پانی سپلائی کیا جاتا تھا ‘پر جب لوگوں کا کمیٹی کے نلکوں سے آنے والے پانی پر اعتبار ختم ہوا تو اس ملک میں منرل واٹر پینے کا رواج عام ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے در جنوں کے قریب مختلف برانڈ کا منرل واٹر مارکیٹ میں بکنے لگا ‘یہ اس ملک کا بھی المیہ ہے اور ہماری تاجر برادری کی بھی اخلاقی کمزوری کہ جب بھی مارکیٹ میں کسی چیز کی ڈیمانڈ زیادہ ہوجائے آئے تو پھر اس کاروبار میں دو نمبری شروع ہو جاتی ہے ‘چنانچہ منرل واٹر کا بھی یہی حشر ہوا اور مارکیٹ میں منرل واٹر کے ایسے برانڈ بھی بکنے لگے کہ جو حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتے تھے ‘حال ہی میں پاکستان آبی وسائل کی تحقیقاتی کونسل نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں اسلام آباد ‘ٹنڈو جام ‘فیصل آباد ‘سیالکوٹ ‘مظفرآباد ‘ملتان ‘کراچی ‘پشاور ‘کوئٹہ اور گلگت سے بند منرل واٹر بوتلوں کے ایک سو آٹھ برانڈز کے نمونے حاصل کیے گئے ان نمونوں کا پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے تجویز کردہ معیار کے مطابق تجزیہ کیا گیا جس کے مطابق ایک سو آٹھ میں سے بارہ برانڈز غیر معیاری پائے گئے ‘۔

ہمارے ہاں اخلاقیات کی اس سے بڑی کمی بھلا کیا ہو سکتی ہے کہ وطن عزیز میں عوام کو منرل واٹر بھی شفاف حالت میں نہیں ملتا ‘جب کہ کئی مغربی ممالک میں کسی ہوٹل میں آپ چلے جائیں تو ان کے واش رومز میں نصب ایک تختی پر آپ کو یہ الفاظ لکھے ملیں گے کہ آپ واش روم کے نلکے کا پانی پی بھی سکتے ہیں یہ تو خیر تصویر کا ایک رخ تھا یعنی ملک میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پینے کے پانی کی فراہمی کی کم یابی ‘اس کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا اہم مسئلہ جس کی طرف حکومت توجہ نہیں دے رہی وہ زیر زمین پانی کی دن بدن بدن کم یابی کا مسئلہ ہے جو آئے روز سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جس تیزی کے ساتھ زیر زمین پانی کو استعمال میں لایا جا رہا ہے اور جس بے دردی سے اس کا ضیاع کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سے بہت جلد وطن عزیز پانی کے بحران کا شکار ہو سکتا ہے اور یہ ایسا بحران ہوگا کہ لوگ بجلی کے بحران کو بھول جائیں گے ‘اس سلسلے میں مختلف فورمز پر پہلے بھی پانی کی کمی کے اس سنگین مسئلے کی طرف حکام کی توجہ دلائی گئی لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں ‘پانی کے استعمال کی راشننگ بھی ضروری ہے اور اس کے ضیاع سے پیدا ہونے والے ممکنہ بحران اور ان کی تباہ کاریوں سے قوم کو آگاہ کرنا بھی از حد ضروری ہے اور غالباً سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ اس ملک کی آبادی میں اضافے پر قدغن لگانے کے لئے ایک مناسب پلان وضع کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر اس بڑھتی ہوئی آبادی پر بریک نہ لگائی گئی تو یہ ملک جو تھوڑی بہت ترقی کرے گا آنے والی آبادی اسے چاٹ جائے گی۔