سیاسی فیشن

 سیاسی رہنماو¿ں کی قدر مشترک یہ بھی ہے کہ یہ اپنے ظاہری رنگ روپ پر بھی خاصی توجہ دیتے ہیں ‘ ہر حال اور ہر موقع پر اِن کی نفاست ملبوسات اور بالوں کے انداز (ہئیر سٹائل) کی صورت سے چھلکتی ہے۔ ایسے ہی ایک انتہائی نفیس انتخاب کے مالک پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری ہیں‘ جنہوں نے کورونا وبا کے بعد ماسک کے ذریعے چہرہ ڈھانپنے میں بھی جدت کا مظاہرہ کیا ہے اور ایسے پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے مختلف کپڑوں سے مطابقت رکھنے والے ماسک استعمال کرنا شروع کئے ہیں لیکن بلاول کا ایک ماسک ایسا بھی ہے جس نے ذرائع ابلاغ اور بالخصوص سوشل میڈیا پر ”دھوم“ مچا رکھی ہے اور پیپلزپارٹی کے حامی و مخالفین اُن کے ماسک بارے اظہار خیال کرتے ہوئے ایسے ایسے الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں‘ جن سے بحث صوبائی حقوق اور علاقائی ثقافت‘ شناخت و پہچان تک جا پہنچی ہے۔ ویسے تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں اِس بات کی ماہر ہیں کہ وہ کسی ضمنی موضوع کو اس قدر اہمیت دیں کہ اُس کی آڑ میں اصل موضوع اِس سے متعلق بحث دب کر رہ جائے۔ 32 سالہ بلاول بھٹو نے سندھی اجرک سے بنا ہوا ماسک استعمال کیا تو تحریک انصاف کے رہنما‘ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے ’اجرک سے بنے ماسک‘ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”اِس سے قبل سیاسی مقاصد کےلئے پیپلزپارٹی صوبائی کارڈ کھیلتی رہی ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبائی ماسک کا استعمال کر رہی ہے۔‘

‘ ذہن نشین رہے کہ بلاول بھٹو گزشتہ کئی ہفتوں سے رنگ برنگے اور کپڑوں سے ملتے جلتے ماسک پہن رہے ہیں تاہم اجرک سے بنا ہوا اُن کا ماسک سوشل میڈیا میں پہلی مرتبہ توجہ کامرکزبنا ہے اور سوشل میڈیا صارفین کی ایک تعداد اِس بات پر تعجب کا اِظہار کر رہی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان عوام کی خدمت کرنے کی بجائے خوش گپیوں میں مصروف ہیں‘سندھ میں صرف کورونا وبا ہی نہیں بلکہ بالخصوص اندرون سندھ کے علاقے جس غربت و افلاس اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں‘ اُن کے بارے میں ذرائع ابلاغ بھی خاموش ہیں کہ حقائق نہیں دکھاتے اور حزب مخالف کے سیاست دان بھی سندھی عوام کی مشکلات کا حقیقی چہرہ پیش نہیں کرتے‘شہباز گل اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں کے درمیان کی ان بن بھی کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ان کی جانب سے بلاول بھٹو اور سندھ حکومت پر کی جانے والی تنقید۔ تاہم اس موقع پر ان کی جانب سے سندھ کی ثقافتی علامت کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبان پر صرف سندھ ہی سے نہیں پورے پاکستان سے متعد افراد نے برہمی کا اظہار کیا۔سوشل میڈیا کے متعدد صارفین کی جانب سے ہیش ٹیگ ’اجرک میری شان ہے‘ اور ’اجرک پاکستان کی شان ہے‘ جیسے ٹرینڈز استعمال کرتے ہوئے اپنی تصاویر ارسال کی گئی ہیں جن میں اُنہیں چادر کی ایک مختلف شکل ”اجرک“ پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔

 اِن تصاویر کو ارسال کرنے والوں میں بڑی تعداد دیگر صوبوں اور بیرون ملک سے صارفین کی بھی ہے جو اجرک کو اِس کے میل خور رنگوں کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔ تاہم پیپلزپارٹی کے رہنماو¿ں کا اپنے قائد بلاول بھٹو کے اجرک والا ماسک پہننے پر تنقید کو زیادہ پسند نہیں کیا گیا۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ ”اجرک صوبے کی نہیں ایک تہذیب اور ورثے کی شان اور پہچان ہے۔“ انہوں نے اپنے اِس پیغام کے ساتھ بلاول‘ محترمہ بینظیر اور اپنی ایسی تصاویر لگائیں جن میں انھوں نے اجرک زیب تن کر رکھی ہے‘یقینا اجرک کوئی عام کپڑا یا ڈیزائن نہیں بلکہ یہ سندھیوں کی قدیم ثقافت کا عکاس اور پہچان ہے لیکن صرف ثقافت اور پہچان کے ذریعے کسی سیاسی جماعت کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ سندھ کے رہنے والے زیادہ بہتر معاشی و اقتصادی حالات‘ امن و امان اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے منتظر ہیں‘ اُنہیں سیاسی رہنماو¿ں کے لباس اور اُن کے چہروں پر اجرک سے بنے ماسک پہننے یا نہ پہننے سے زیادہ اپنے روزمرہ مسائل اور پریشانیوں کی فکر ہے۔ محاورہ ہے کہ ”بھرے پیٹ باتیں ہی الگ ہوتی ہیں!“ وقت ہے کہ اِس بارے میں زیادہ سنجیدگی و گہرائی سے سوچا جائے کہ پاکستان کا وہ عام آدمی کب آسودہ حال ہو گا‘ جس کے نام پر سیاسی کھیل تماشا جاری ہے؟