دیہی ترقی واستحکام

 پاکستان میں زرعی شعبہ جو پہلے ہی ”محروم توجہ“ تھا‘ کورونا وبا کے سبب انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ اِس سلسلے میں رواں ہفتے اِنٹرنیشنل ٹریڈ سنٹر کی جانب سے جائزہ رپورٹ میں حکومت کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی گئی ہے کہ بالخصوص سندھ اور بلوچستان کے لگ بھگ تمام زرعی شعبے‘ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے کورونا وبا سے شدید متاثر ہیں اور انہیں اپنی رہی سہی معیشت بچانے کے لئے حکومت کی فوری مدد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ایجنسی انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹرچھ سالہ ”دیہی علاقوں کی ترقی اور استحکام“ نامی ایک عالمی منصوبے پر اِن دنوں کام کر رہی ہے جس کے تحت پاکستان کو بھی غربت کے خاتمہ کے لئے مالی و تکنیکی امداد دی جا رہی ہے اور مذکورہ پروگرام کے تحت صوبہ سندھ اور بلوچستان میں چھوٹے پیمانے پر کاروباری سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ منصوبہ سال 2019ءمیں شروع ہوا تھا جس کے لئے مالی امداد یورپی یونین کی جانب سے فراہم کی گئی اور یہ منصوبہ 2024ءتک جاری رہے گا۔ بلوچستان سے متعلق عالمی (زرعی) سروے میں نشاندہی کی گئی کہ اُنتیس فیصد زرعی کاروبار اور چونتیس فیصد کسان حکومت سے عارضی بنیادوں پر لیکن فوری مالی امداد چاہتے ہیں تاکہ وہ موجودہ بحران سے نمٹ سکیں اور زرعی شعبے کے غیرپیداواری اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو سکیں۔

 اسی طرح تیئس فیصد زرعی کاروبار اور اَٹھائیس فیصد کسانوں نے حکومت سے سازگار ماحول میں کام کرنے اور صفائی ستھرائی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ زرعی شعبے میں کام کرنے والی افرادی قوت کو واپس لایا جا سکے جبکہ چودہ اور اٹھارہ فیصد نے سیکورٹی امداد فراہم کرنے پر زور دیا ہے تاکہ زرعی غذا کے شعبے کو اجناس کی گرتی ہوئی قیمتوں کے ماحول میں تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ تقریباً ستر فیصد زرعی کاروباری ادارے اور کسان پریشان ہیں جنہیں متعلقہ حکومتی اداروں سے خاطرخواہ معلومات نہیں مل رہیں اور جو حکومت کی جانب سے ملنے والی توجہ سے مطمئن نہیں۔ کسانوں اور کاشتکاروں کو بروقت موسمی و دیگر معلومات تک رسائی دینے کے لئے زرعی حکمت عملی (پالیسی) پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ کورونا وبا کے سبب پیدا ہوئی صورتحال اور درپیش مشکلات سے نکلنے کی صورت ظاہر ہو۔ بالترتیب اُنتیس اور تیئس فیصد کا کہنا ہے تجویز کردہ پالیسیوں کے علاوہ حکومت کی طرف سے عارضی اجرت جیسی سبسڈی سب سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ سروے کے بیشتر رسپانڈنٹس نے کہا کہ انہیں فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کاروباری اداروں کو بچانے کے لئے حکمت عملی تیار کرسکیں۔ علاوہ ازیں زرعی پیداواری ضروریات کی دستیابی میں اضافہ‘ منڈی کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور مالی اعانت تک رسائی میں مدد شامل ہے۔ آئی ٹی سی سروے نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے ”کریڈٹ گارنٹی اسکیمیں“ مہیا کی جائیں۔ سندھ کے نصف دیہی ایم ایس ایم ای چاہتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ اِن پٹ جیسا کہ بیج‘ کھاد اور خوراک کی ادائیگی کو موخر کردے۔

 ہر پانچ میں سے ایک کاشت کار اور اٹھارہ فیصد زرعی کاروباروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر خوراک کے ذخائر یا فوڈ بینک بنائے تاکہ پیداواری سرگرمی پر تعاون حاصل ہوسکے۔ ایک چوتھائی نے اشیاءکی گرتی قیمتوں کے خلاف تحفظ کی شکل میں سیکیورٹی نیٹ کا بھی مطالبہ کیا۔کورونا اور زرعی شعبے کی مشکلات کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں زرعی معیشت و معاشرت دباو¿ (غیریقینی) کے دور سے گزر رہی ہے اور اِس پورے ماحول میں قومی و صوبائی سطح پر زرعی حکمت عملیوں کو مربوط و منظم کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص چھوٹے کاشتکار توجہ کے مستحق ہیں‘ جن کی اکثریت اِجارے (ٹھیکے) پر اَراضی حاصل کرتی ہے اور جاگیردار اُن کے خسارے میں شریک (حصہ دار) نہیں ہوتے۔ وہ زرعی شعبہ جو بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور سبزی و پھل کی غیرمستحکم قیمتوں (منڈیوں) کے باعث دباو¿ سے گزر رہے‘ اُنہیں سہارا دینے کے لئے یہی مناسب وقت ہے جس کے ذریعے نہ صرف زرعی شعبے کو ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ اِس سے غذائی خودکفالت کی صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ کورونا وبا کب تک رہے گی‘ کوئی نہیں جانتا لیکن اگر زرعی شعبہ فعال رہا تو اِس وبا سے نمٹنے میں قومی معیشت اپنے پاو¿ں پر کھڑی رہے گی کیونکہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں70فیصد سے زائد ملازمتی مواقع اور 3 فیصد شرح نمو فراہم کرنے والا زرعی شعبہ قدرت کا عطیہ ہے‘ جس کی پاکستان میں سرکاری سطح پر خاطرخواہ قدردانی دکھائی نہیں دیتی۔