سینہ زوری

 وہی ہوا جس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا تھا‘ 6 اگست کو (پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 7 اگست) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معروف چینی ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک (TikTok) اور ملٹی پرپز میسیجنگ ایپ وی چیٹ (WeChat) پر پابندیوں سے متعلق 2 الگ الگ صدارتی حکم ناموں پر دستخط کر دیئے‘ اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو قومی سلامتی کے پیشِ نظر ٹک ٹاک کے مالکان کے خلاف جارحانہ کاروائی کرنا ہوگی‘ ٹک ٹاک نے اِن الزامات کی تردید کی ہے کہ اس کے پاس محفوظ صارفین کے کوائف پر چین کی حکومت یا وہاں کی حکمراں جماعت کا کنٹرول ہے یا اِن کوائف تک چین کی حکومت کو رسائی دی جاتی ہے‘ امریکہ جیسی عالمی طاقت کے صدر کی سینہ زوری اور ”بظاہر بے ضرر“ نظر آنے والی سوشل میڈیا ایپ کے خلاف اِس قسم کی کاروائی کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ٹک ٹاک کی مقبولیت کا راز اور اس ایپلی کیشن (ایپ) کی کہانی کیا ہے۔ دسمبر 2018ءمیں سامنے آنے کے بعد ٹک ٹاک نے کروڑوں صارفین کو اپنی جانب متوجہ کیا لیکن اس سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے سوشل نیٹ ورکس پر بھی خوب پذیرائی ملی۔ دنیا نے اس ایپ کی طرف توجہ مبذول کر لی اور ٹک ٹاک اُس وقت سے کروڑوں پرجوش‘ تخلیقی اور نوجوان صارفین کی توجہ کا مرکز ہے۔ ٹک ٹاک کا آغاز ’ایک دفعہ کا ذکر ہے....‘ سے شروع ہونے والی کہانیوں سے مختلف ہے۔ یہ کہانی بنیادی طور پر 3 طرح کی ایپس سے شروع ہوتی ہے۔ پہلی ایپ میوزیکل ڈاٹ لی (Musical.ly) ہے جس کا آغاز 2014ءمیں شنگھائی (چین) سے ہوا۔ اس ایپ میں امریکی کاروباروں کا بھی گہرا تعلق تھا ۔

2016ءمیں میں چینی ٹیکنالوجی ایپ بائٹ ڈانس نے چین میں اسی طرح کی ایک سروس 'ڈوئین‘ شروع کی تھی۔ اس نے ایک سال کے عرصے میں چین اور تھائی لینڈ میں 100ملین صارفین کو اپنی طرف راغب کیا۔ بعدازاں بائٹ ڈانس نے ٹک ٹاک نامی ایک تیسرے برانڈ کو متعارف کرایا اور اِس کا دائرہ کار بڑھاتی چلی گئی۔ 2018ءمیں میوزیکل ڈاٹ لی کو بھی خریدنے کے بعد سے ٹک ٹاک عالمی سطح پر پھیلنا شروع ہوا۔ ٹک ٹاک کی کامیابی کا راز اِس کے ذریعے کسی بھی ذاتی ویڈیو پر موسیقی کا استعمال ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اِس سہولت کے پیچھے ایک غیر معمولی‘ طاقتور اور مصنوعی ذہانت سے لیس ”الگورتھم (کمپیوٹر پروگرام)“ کام کرتا ہے جسے صارفین کی پسند و ناپسند کو مدنظر رکھتے ہوئے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس وقت اور کس موقع پر کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں‘صارفین گانوں‘ فلٹرز اور فلموں کے کلپس کی ایک بہت بڑی ڈیٹا بیس میں سے اپنی پسند کی آوازوں کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اِس سہولت نے ٹک ٹاک کو سوشل میڈیا پر اپنی تخلیقی صلاحیتیں دکھانے کے لئے بیتاب نوجوانوں میں بے حد مقبول کیا۔ ٹک ٹاک نے صرف امریکی اور یورپی سوشل میڈیا ایپس ہی کو پیچھے نہیں چھوڑا بلکہ خود پر حد سے زیادہ بھروسہ رکھنے والی مغربی ذرائع ابلاغ کا بھی خوب مذاق اُڑایا بالخصوص جب برطانوی نشریاتی ادارے نے کورونا وائرس سے متعلق کچھ مضحکہ خیز معلومات عام کیں تو اُس کی خبروں سے قبل نشر ہونے والی موسیقی پر صارفین نے مزاحیہ ویڈیوز بنا کر نشریاتی ادارے کے فیصلہ سازوں کے ناک میں دم کر دیا۔ ٹک ٹاک ہر صارف کو خاص بنا کر پیش کرتا ہے اور اُسے ایسا مواد تخلیق کرنے پر اُکساتا ہے جس کے بارے میں اُسے لگے کہ وہ بہت زیادہ مقبول ہو جائے گا۔

 دیگر سوشل میڈیا ایپس کی کمزوری یہ ہے کہ اِس میں کسی صارف کی مقبولیت ہی اُس کے خیالات یا ویڈیوز یا تصاویر کی مقبولیت بنتی ہے لیکن ٹک ٹاک نے اِس نظریئے کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اب ایک غیرمعروف صارف بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں مقبول ہو سکتا ہے۔ امریکہ کے لئے یہ حقیقت ہضم کرنا مشکل ہے کہ ایک چینی ایپ اتنی تیزی سے دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے کہ اُس کے فعال صارفین کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے‘ اور یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر جیسی اہم اور مصروف شخصیت کو مداخلت کرنا پڑی اور ٹک ٹاک کے خلاف جاسوسی جیسے الزامات عائد کئے گئے ‘امریکی حکم پر بھارت نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی اور اِس کے دیگر اتحادی ممالک (آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ وغیرہ) بھی ٹک ٹاک کے خلاف ممکنہ کاروائیوں کا عندیہ دے چکے ہیں‘ ٹک ٹاک کے خلاف پابندیاں راتوں رات نہیں لگائی گئیں بلکہ اِس عمل کا آغاز امریکہ نے سال 2019ءکے آخر میں شروع کر دیا تھا اور اِسے قومی سلامتی کے خطرہ قرار دے کر حکمراں (ری پبلکن) اور حزب اختلاف (ڈیموکریٹکس) رہنماو¿ں نے سر جوڑ کر جائزہ لیا اور اِس بات پر اتفاق سامنے آیا کہ ٹک ٹاک اگر اب نہیں تو مستقبل میں امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے‘ بنیادی بات یہ ہے کہ اَمریکہ میں ”ٹک ٹاک“ کا مستقبل کیا ہوگا؟ اِس سے زیادہ غور طلب پہلو یہ ہے کہ امریکہ نے معاشی و تجارتی میدانوں کی طرح سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر اپنی پہلی شکست کا اعتراف کیا ہے جبکہ ٹک ٹاک کے لئے دنیا چھوٹی نہیں اور یہ امر اپنی جگہ سودمند ہے کہ امریکی پابندی سے ٹک ٹاک کی مقبولیت (صارفین کی تعداد) میں اضافہ ہوا ہے۔