ادھوری ترجیحات واصلاحات

 پہلا نکتہ: اِداروں میں سیاسی مداخلت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہونا چاہئے۔ صدارتی حکمنامے کے ذریعے ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی جگہ ’پاکستان میڈیکل کونسل متعارف کروائی گئی ہے۔ اِصلاح کا یہ طریقہ غیرپارلیمانی ہونے کے علاوہ بھی ”ناکافی“ ہے کیونکہ اگر نئے نام سے بھی اِس ادارے کی نگران اِنتظامیہ ’منتخب ہونے کی بجائے ’چنیدہ اَفراد پر مشتمل ہوئی تو اِس سے اِصلاح کا عمل اَدھورہ رہے گا۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ سالہا سال سے ’پی اَیم ڈی سی‘ کے فیصلہ سازوں کا چناو¿ حسب قانون بذریعہ رائے شماری نہیں ہوا بلکہ ہر حکومت اِس بات کو اپنا استحقاق سمجھتی ہے کہ وہ براہ راست مداخلت سے ذریعے نگران اور ماتحت فیصلہ سازوں کو مسلط کرے اور اِدارے کو چلانے کے لئے آئین اور اِس آئین کی روشنی میں قواعد سازی بالائے طاق رکھ دیئے جائیں۔ ’پی ایم ڈی سی‘ کا قیام 1962ءکے ایک قانون کے مطابق عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ادارہ اپنے فیصلوں میں ”خودمختار“ ہوگا اور اِس کے فیصلے منتخب ہونے والے نگران کریں گے لیکن ہر سیاسی دور میں مداخلت کی گئی اور منظور نظر افراد کو ’پی ایم ڈی سی‘ کی فیصلہ سازی سونپنے والے اپنے غلط فیصلوں کے لئے خود کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا رہے۔ پی ایم ڈی سی کی فیصلہ سازی ایسے افراد کو سونپی جاتی رہی جن کا طب کے شعبے سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ دوسرا نکتہ: پاکستان میں طب کی اعلیٰ تعلیم اور طب سے متعلق فیصلہ سازی پر نجی میڈیکل کالجوں کی اجارہ داری ہے۔

یہ نجی ادارے ”خودرو جھاڑیوں“ کی طرح اِس حد تک پھیل چکے ہیں کہ اب حکومت کا طب کی تعلیم پر عملاً کنٹرول نہیں رہا۔ تصور کیجئے کہ پاکستان کے طول و عرض میں میڈیکل کالجز کی کل تعداد 114 ہے جن میں طب کے سرکاری تدریسی و تربیتی اِداروں کی تعداد صرف 44 جبکہ نجی شعبوں کی ملکیت اداروں کی تعداد 70 ہے۔ جب طب کے نگران وفاقی اِدارے کے فیصلوں اور انتظامی معاملات کے حوالے سے رائے شماری ہوتی ہے تو نجی ادارے اپنی تعدادکی وجہ سے نگران ادارے کے سخت گیر فیصلوں کو اپنے حق میں نرم کر دیتے ہیں یا انہیں منظور ہونے نہیں دیتے اور یوں سرکاری فیصلہ سازی میں نجی اِداروں کی مداخلت سے حکومت کے مفادات کا تحفظ نہیں ہوتا یوں سالہا سال سے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ جاری ہے۔ یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ طلبا و طالبات میڈیکل کالجوں میں داخلے کے درخواستیں دیتے ہیں لیکن اُن میں سے صرف 15 ہزار خوش نصیبوں ہی کو داخلہ مل پاتا ہے۔ حکومت اگر کسی وجہ سے نجی میڈیکل کالجوں کے مقابلے میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر سکتی تو سرکاری کالجز میں شام کی کلاسزشروع کر کے نجی میڈیکل کالجز کی اجارہ داری باآسانی ختم کی جا سکتی ہے۔تیسرا نکتہ: نجی اِداروں کے مفادات کی بجائے قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

 پاکستان میں طب کی اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے قیام کی اجازت ’پی ایم ڈی سی‘ دیتا ہے۔ مختلف سیاسی اداروں میں اِس قدر نجی میڈیکل کالجوں کے قیام کی اجازت دی گئی کہ اُن کی تعداد سرکاری میڈیکل کالجوں سے زیادہ ہوگئی اور یوں نجی میڈیکل کالج جو ایک دوسرے کے کاروبار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں حکومتی فیصلہ سازی کو ’ہائی جیک‘ کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر کاروباری شعبوں کی طرح پاکستان میں طب کی اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی نجی میڈیکل کالجوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اِس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ طب کی تعلیم اور طب سے متعلقہ امور پر نجی اداروں کی اجارہ داری نہ ہو۔ نجی شعبے میں میڈیکل کالجوں کی تعداد میں ”اَندھا دُھند اضافہ کا منفی اَثر طب کی تعلیم کے معیار پر بھی نمایاں ہے اِس لئے ضروری ہے کہ ’پی ایم ڈی سی‘ یا ’پی ایم سی‘ کے تحت میڈیکل کالجوں کی نمائندگی اِس طرح ہونی چاہئے کہ نجی کالجز فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لیں۔چوتھا نکتہ: نام کی تبدیلی مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو نئے نام ’پاکستان میڈیکل کونسل‘ یا کسی بھی دوسرے سے متعارف کرانا سے اصلاح نہیں ہوگی بلکہ اِس سے ایک اہم قومی ادارے کی عالمی ساکھ متاثر ہوگی اور پاکستان سے فارغ التحصیل ہونے والے وہ ڈاکٹر جو بیرون ملک اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں‘ ادارے کا نام تبدیل کرنے سے اُن کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

 یہ بالکل ویسی ہی ”جگ ہنسائی“ کاعمل ہوگا جیسا کہ ’پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن کی صورت میں دیکھا گیا جہاں پائلٹس کی جعلی اسناد کو غیرمحتاط انداز میں اُچھالا گیا اور اُس سے اگرچہ حکومت کو سیاسی فائدہ تو ہوا لیکن ایک قومی ادارے کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی اور بعدازاں کئے جانے والے اقدامات بھی کام نہ آ سکے۔ لہٰذا شہری ہوا بازی کے ادارے میں کی جانے والی غلطیوں کو طب کے شعبے میں نہ دُہرایا جائے۔پانچواں نکتہ: اصلاحات کا عمل وسیع بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر سیاسی حکومت صرف 2 ہی محکموں کو ’مشق سخن‘ بناتی ہے اور اصلاحات کا عمل ”محکمہ تعلیم“ اور ”محکمہ صحت“ سے شروع کیا جاتا ہے؟ سیاسی و غیرسیاسی‘ منتخب و غیرمنتخب حکمراں عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لئے صحت و تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات کا اعلان کرتے ہیں لیکن اِس شعبے کے لئے آبادی اور ضرورت کی تناسب سے سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ہسپتال ہیں جن میں ڈاکٹر نہیں۔ ڈاکٹر ہیں تو ادویات نہیں۔ ادویات ہیں تو عوام کی قوت خرید سے زیادہ ہیں اور اگر طب کی اعلیٰ تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو اِسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ ڈاکٹر مطمئن نہیں۔ مریض مطمئن نہیں اور سیاسی فیصلہ ساز مطمئن نہیں تو آخر یہ اطمینان کہاں چلا گیا؟