میڈیکل کا لج کا خواب۔۔۔

دو اچھی خبریں ایک ساتھ آئی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے چیئر مین ڈاکٹر طارق بنوری نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمو د خا ن سے ملاقات کر کے یو نیور سیٹیوں کو در پیش مسا ئل ، تعلیم کے معیار اور تحقیق کے تقا ضوں پر تبا دلہ خیال کیا ہے صو بے کی جا معات کو درپیش مسائل حل کرنے کا عندیہ دیا ہے اور آنے والے دنوں میں بہتررابطہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ہے دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ پا کستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ملبے پر بنی ہوئی پا کستان میڈیکل کمیشن کو نیا کل وقتی چیئر مین مل گیا ہے ڈاکٹر آصف ممتاز سکھیر ا ملک کے نامور فزیشن ہیں اس سے پہلے پا ک آر می کے سر جن جنرل بھی رہ چکے ہیں حال ہی میں لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ریٹا ئر ہو ئے ہیں جن لو گوں کو ڈاکٹر آصف ممتاز کے ساتھ کام کرنے کا مو قع ملا وہ کہتے اور لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں تو اضع ہے عاجزی اور انکساری ہے ان کا پس منظر جا گیرداری اور سر ما یہ داری نہیں بلکہ متوسط طبقے کی نما ئندگی ہے اگر چہ ہم قانون ، اصول رولز ریگولیشن کا بڑا ذکر کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں زیادہ تر ادارے کا سر براہ ہی ادارے کو سنبھا لتا ہے رولز اور ریگو لیشن بے جا ن چیز یں ہیں سر براہ کے سامنے کا غذوں کا یہ پلندہ بے بس ثا بت ہو تا ہے اس لئے ڈاکٹر آصف ممتاز سکھیرا کے آنے کے بعدپاکستان میڈیکل کمیشن سے چند تو قعات وابستہ کی جا سکتی ہیں ڈاکٹر صاحب کو بخو بی علم ہے کہ یہ کمیشن پرا ئیویٹ میڈیکل کا لجوں کے مالکان کی درخواست اور مر ضی پر بنا یا گیا ہے اس کے بورڈ میں اکثر ارکان کا تعلق پرائیویٹ میڈیکل کا لجوں سے ہے مو جو دہ سال کے داخلوں میں سر کاری میڈیکل کا لجوں کی 283سیٹیں پرائیویٹ میڈیکل کا لجوں کو دیدی گئیں رحیم یار خان ، پنجگور، دادو ، کر ک،کو ہستان ، چترال اور دیگر اضلاع کے 283نو جوان میرٹ پر آنے کے باوجو د میڈیکل کا لجوں میں جانے سے محروم رہے کیونکہ ان کے والدین پرائیویٹ میڈیکل کا لجوں میں 35لا کھ روپے کی فیس ادا نہیں کر سکتے تھے‘ اگلے سال کےلئے غریب اور قابل نو جوان میڈیکل کا لج کا خواب نہیں دیکھ سکیںگے اس مسئلے کا دوسرا پہلو بہت بھیا نک ہے جو نو جواں محض دولت کے بل بو تے پر داخلہ حا صل کر کے میڈیکل کا لجوں میں جا تے ہیںان میں سے بعض امتحا ن پا س کر کے ہسپتالوں پر بوجھ بن جا تے ہیں ‘ مریضوں کی ہسٹری ، مریضوں کی خد مت ڈیو ٹی پر مو جو د سینئر ڈاکٹر کے ساتھ تعاون ، ساتھی ڈاکٹروں کی مدد اور ہسپتال کے عملے کی عزت نہیں کر تے سپیشلا ئزیشن کے مرحلے میں ٹرینی میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے وہ ہسپتال پر نا روا بوجھ بن جا تے ہیں انہیں قیمتی گاڑیوں اور سیر سپا ٹوں کا شوق ہو تا ہے یو رپ اور امریکہ جانے کے منصو بے بناتے ہیں اور اپنے سینئرز کو خا طر میں نہیں لا تے چھوٹے ہسپتالوں میں ڈیو ٹی دینے کو اپنی شان کے خلا ف سمجھتے ہیں ان لو گوں نے محض دکھا وے کےلئے سٹیٹس سمبل کے طور پر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا اس شعبے میں کام کرنا ان کے مزاج کے خلا ف ہے پرائیویٹ میڈیکل کا لجوں کو پی ایم ڈی سی سے دوشکایات تھیں پہلی شکا یت یہ تھی کہ ان پر قواعد و ضوابط کی پا بندی نہ لگا ئی جا ئے رجسٹریشن کی شرائط نر م کی جائیں اور من ما نی کی اجا زت دی جائے دوسری شکا یت یہ تھی سپیشلائزیشن کےلئے میرٹ نہ رکھا جائے پرائیویٹ میڈیکل کا لجوں کو مخصو ص کو ٹہ دیدیا جائے اگلے دو چار سالوں میں میڈیکل کی تعلیم کا پورا نظام نجی سر ما یہ کاروں کے ہا تھوں میں یر غمال ہو ا تو پاکستان میں متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نو جوانوں پر ڈاکٹر بننے کا دروازہ بند ہو جائے گا ڈاکٹر آصف ممتاز کی سر براہی میں پاکستان میڈیکل کمیشن سے کئی تو قعات وابستہ کی جا سکتی ہیں پہلی توقع یہ ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کا لجوں کی اجا رہ داری کو ختم کر کے ایک بار پھرمتوسط اور غریب طبقے کو میڈیکل کا لجوں میں رسائی دینی چا ہئے زند گی امید پر قائم ہے۔