ساکھ کا کھیل

اِنسان سماجی جانور ہے جس کے معمولات کا دارومدار اِس کی ساکھ پر منحصر ہے اور یہی ساکھ کسی معاشرے اور ملک کی اِجتماعی حیثیت سے بھی ہوتی ہے جبکہ ساکھ عمل سے اَخذ ہوتی ہے اور عمل اَچھے بُرے نتائج کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ’بدعنوانی‘ پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’ٹرانسپیرنسی اِنٹرنیشنل‘ نے 180 ممالک سے متعلق ایک فہرست جاری کی ہے۔ اٹھائیس جنوری کی شام جاری ہونے والی اِس سالانہ فہرست کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اِس میں بدعنوانی سے متعلق تاثر کی بنیاد پر درجہ بندی طے کی جاتی ہے اور تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے تاثر سے متعلق درجہ بندی میں چار درجے کی تنزلی ہوئی ہے۔”کرپشن پرسیپشن اِنڈیکس (سی پی آئی)“ برائے سال دوہزاربیس سے متعلق تحریک انصاف کا پہلا ردعمل یہ سامنے آیا کہ مذکورہ فہرست مرتب کرتے ہوئے جن اعدادوشمار کا سہارا لیا گیا وہ گزشتہ حکومتوں کے اَدوار (2017ء سے تین سالہ کارکردگی) پر مبنی ہیں اور اِن کا تحریک انصاف حکومت کے طرزحکمرانی سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرا ردعمل یہ ہے کہ ”عالمی تنظیم نے صرف دو حکومتی محکموں کی ریٹنگ کی وجہ سے پاکستان کے سکور میں تنزلی کی۔“ تاہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مذکورہ فہرست میں درجہ بندی کے لئے جن کوائف سے استفادہ کیا‘ وہ بھی جاری کیا ہے اور یہ تحریک انصاف حکومت ہی کے دور سے متعلق ہے۔ رپورٹ کے ساتھ جاری کی گئی فائلز میں ادارے نے ایسی رپورٹ کی تیاری کے طریقہ کار کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ طریقہ کار کی فائل کے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ سی پی آئی دوہزاربیس کا حساب بارہ مختلف محکموں کے تیرہ مختلف اعدادوشمار کی مدد سے لگایا گیا جو گزشتہ دو برس میں بدعنوانی کے تاثر کا احاطہ کرتے ہیں۔ رپورٹ کے ساتھ متعلقہ فائلز کے مطابق تیرہ میں سے آٹھ محکموں کا ڈیٹا پاکستان میں بدعنوانی کے تاثر کو مرتب کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تاہم سورس ڈسکرپشن کی فائل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ استعمال کیا گیا ڈیٹا سال دوہزار اُنیس اور دوہزار بیس کا ہے۔ پاکستان کیلئے ’سی پی آئی‘ درجہ بندی کو ماضی میں بھی خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی جبکہ اگر عالمی تنظیم کی بدعنوانی کے تاثر سے متعلق فہرست کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور اِس کی روشنی میں عملی اقدامات کئے جائیں تو حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا موقع مل سکتا ہے جس سے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ بہتر ہو سکتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اُس کی رپورٹ بدعنوانی سے متعلق تاثر کی عکاسی کرتے ہے اور اب تک کوئی ایسا اشاریہ یا پیمانہ یا کسوٹی تیار نہیں کی جا سکی ہے جس سے دنیا کے کسی بھی ملک میں براہ راست بدعنوانی کی پیمائش کی جا سکے‘تحریک انصاف کی حکومت شروع ہونے سے قبل سال دوہزار سترہ اٹھارہ میں پاکستان 117ویں درجے پر تھا۔پاکستان کا المیہ یہ نہیں کہ یہاں انسداد بدعنوانی کے لئے درکار قوانین و قواعد کی کمی ہے بلکہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قوانین پر عمل درآمد بلاامتیاز نہیں‘ایک ایسی صورتحال جس میں خواص کیلئے قوانین میں استثنیٰ موجود ہے وہاں بدعنوانی کی کمی اور خاتمے سے متعلق دعوؤں کی کوئی اہمیت و حقیقت نہیں ہے۔قومی فیصلہ سازوں کو یہ باریک نکتہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ایک ”اسلامی جمہوریہ“ ہے اور کسی ایسے ملک کیلئے کہ جس کا تشخص و تعارف ”اسلامی“ ہونے کے ساتھ وہاں بدعنوانی بھی پائی جاتی ہے تو یہ کسی بھی صورت چاہے بات صرف تاثر ہی کیوں نہ ہو لیکن قابل قبول نہیں ہونا چاہئے۔