خفیہ سرمایہ کاری۔۔۔۔

موٹرگاڑیوں کی خریدوفروخت کے کاروبار میں قلیل مدتی سرمایہ کاری کرنے والے مالیاتی نظم و ضبط سے متعلق نئے قواعد و ضوابط سے پریشان ہیں جنہوں نے خفیہ سرمایہ کاری کے چور راستے تلاش کر لئے ہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ حکومت معیشت (کاروباری سرگرمیوں) کو جس قدر منظم و دستاویزی بنانا چاہتی ہے‘ اُسی قدر مزاحمت دیکھنے میں آ رہی ہے اور معیشت کے لااُبالی پن کو برقرار دیکھنے والوں کی کوشش ہے کہ معاشی اصلاحات کامیاب نہ ہو پائیں یا اُن کی موجودگی میں بھی ’غیردستاویزی لین دین‘ جاری ہے۔ گاڑیوں کی خریدوفروخت میں سرمایہ کاری کو ”اُون منی (own-money)“ کہا جاتا ہے۔ رجسٹرڈ ڈیلر شپ کے ذریعے گاڑی کی ابتدائی قیمت کی مساوی مالیت کا ’پے آرڈر‘ دے کر گاڑی مختص (book) کر لی جاتی ہے اور یوں چند مہینوں میں ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے منافع کما کر گاڑی کسٹمر کو فروخت کر دی جاتی ہے۔ اِس خدمت کے عوض ڈیلر چالیس فیصد تک کمیشن وصول کرتے ہیں۔ ’اون منی‘ کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے والے ایک وقت میں کئی گاڑیوں کی بکنگ کرتے ہیں۔ یہ کاروبار منافع بخش ہونے کے ساتھ محفوظ بھی ہے۔ گاڑیوں کے بڑے ڈیلرز اربوں روپوں کی گاڑیاں خود ہی پیشگی ادائیگی پر بک کرواتے ہیں۔ قانونی شکل و صورت میں اِس غیرقانونی کاروبار کی روک تھام کےلئے حکومت نے یہ شرط رکھی ہے کہ ایک فرد ایک سال میں اپنے شناختی کارڈ پر صرف ایک گاڑی بک (مختص)کروا سکتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا اور ایک شخص کے شناختی کارڈ پر سینکڑوں گاڑیاں بُک ہو سکتی تھیں لیکن ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)‘ قواعد کی وجہ سے سختی ہوگئی ہے۔ گاڑیوں کی خریدوفروخت کے سرمایہ کار اپنی بیوی‘ بیٹی‘ بیٹے‘ بھائی‘ ماں‘ باپ‘ قریبی رشتہ داروں یا دوستوں کے شناختی کارڈز پر ہر ماہ ایک گاڑی بک کروا دیتے ہیں اور پھر اُنہیں بیچ دیتے ہیں یوں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں‘ ڈیلروں اور سرمایہ کاروں کا کاروبار چمک رہا ہے۔ گھر بیٹھے سرمایہ کاری اور منافع خوری کے اِس آسان طریقے (کاروباری حربے) نے عام آدمی کےلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ وہ مجبور ہوکر اضافی رقم دیتا ہے جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گاڑی کی انوائس پر اصل قیمت لکھی ہوتی ہے جبکہ زیادہ ادائیگی کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں گاڑی کی خریداری پر ادا کردہ اصل رقم پر جو ٹیکس (رقم) حکومت کو ملنا چاہئے وہ بھی نہیں ملتا اور غیرقانونی طریقے سے کمائی گئی رقم کو (بلیک منی) کو جائز (وائٹ) کرنے کے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ بلیک منی کے بڑے حصے کی سرمایہ کاری گاڑیوں کی خریدوفروخت میں ہوتی ہے‘ جو درحقیقت حکومتی ناکامی ہے کہ قواعد میں موجود خامیوں (سقم) کا فائدہ مافیاز اٹھا رہے ہیں اور گاڑیوں کے عام خریداروں کو مالی نقصان و پریشانی اٹھانا پڑ رہی ہے اگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ سب سے پہلے ان کمپنیوں کی بکنگ اور تیاری کے مراحل کا آڈٹ کروائے۔ اگر یہ قصوروار ہیں تو سخت سزا دی جائے‘ اُن کے لائسنس معطل کئے جائیں اور نئی کمپنیوں کو مارکیٹ میں آنے کی اجازت دی جائے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے رجسٹرڈ ڈیلرز پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔ صرف ڈیلر کے لیٹر ہیڈ پر گاڑیاں بک کرلینا جرم قرار دیا جائے۔ ایک سے زیادہ گاڑی بک کروانے کےلئے کمپنی کی تمام تفصیلات پیش کرنا لازمی قرار دیا جائے جن میں بینک سٹیٹمنٹ اور فنانشل سٹیٹمنٹس شامل ہوں۔ کوئی بھی گاڑی استعمال کرنے سے پہلے بیچنا جرم قرار دیا جائے۔ ٹیکس لگا کر بھی اس معاملے پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔