زرعی اصلاحات بذریعہ قانون سازی۔۔۔۔

پاکستان میں زرعی اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت سندھ اسمبلی کی جانب سے منظور ہونے والے قانون کی صورت سامنے آئی ہے جس کے ’واٹر مینجمنٹ‘ میں پہلی مرتبہ خواتین کاشتکاروں کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔ سندھ واٹر مینجمنٹ(ترمیمی) بل 2018ءاس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ صوبہ سندھ کی تقریباً پینتالیس ہزار واٹر کورس ایسوسی ایشنز‘ ساڑھے تین سو سے زائد کسان تنظیموں اور چودہ ایریا واٹر بورڈز میں خواتین کاشتکاروں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس تاریخی تبدیلی کے لئے کاشتکاروں کی جانب سے طویل جدوجہد دیکھنے میں آئی‘ جو بالآخر منطقی انجام کو پہنچی ہے۔اندرون سندھ کے دور دراز دیہی علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہے اور اس وجہ سے بدین اور ٹھٹہ کے زرخیز کھیت بنجر ہونے کے بعد وہاں سے مقامی افراد (بشمول کاشتکار خاندانوں) نے نقل مکانی کی تھی۔ پانی کی کمی سے نمٹنے اور اِس کی منصفانہ تقسیم کےلئے سال 2002ءمیں ’سندھ واٹر مینجمنٹ آرڈیننس‘ کی روشنی میں کسان تنظیمیں وجود میں آئیں‘ جنہوں نے پانی کی یکساں تقسیم کےلئے ہر نہر پر کسانوں کی ایک تنظیم بنائی لیکن اِن تنظیموں میں خواتین کاشتکاروں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی اور اِس اہم معاملے سے خواتین کو الگ رکھا گیا تھا۔ دیہی سندھ کی زراعت کا ایک بڑا حصہ خواتین کاشتکاروں پر مشتمل ہے۔ سال دوہزارپندرہ میں اَقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ’فوڈ اینڈ اِیگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے او)‘ کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ سندھ کے دیہی اضلاع میں رہنے والے مردوں نے مالی حیثیت کو بہتر بنانے اور جاگیرداروں (وڈیروں) کے مظالم سے بچنے کےلئے شہروں کی جانب ہجرت کی۔تین سال کی جدوجہد کے بعد بارہ جنوری دوہزاراکیس کو سندھ اسمبلی نے ممبر صوبائی اسمبلی رانا انصر کے جانب سے پیش کی گئی ترامیم منظور کر لی گئیں جن کے سیکشن 30 میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’ایریا واٹر بورڈ (اے ڈبلیو بی) کمانڈ ایریا سے آبپاشی پر منحصر زراعت اور تقسیم آب کا پس منظر رکھنے والی کم سے کم دو خواتین انتظامی بورڈ کی ممبر ہوں گی۔ یہاں ان خواتین کو اہمیت دی جائے گی جو کسی کسان تنظیم کی ممبر ہوں۔ سیکشن 42 میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’ایک کسان تنظیم سے تعلق رکھنے والی دو خواتین جو آب پاشی پر منحصر زراعت اور پانی کی تقسیم کا پس منظر رکھتی ہوں گی اور جن میں سے ایک خاتون کے پاس کسی زمین کے مالکانہ حقوق نہ ہوں۔ سیکشن 56کے ذیلی سیکشن (1) میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’واٹر کورس ایسوسی ایشن (ڈبلیو سی اے) کے منتخب ممبران کے علاوہ دو خواتین بھی ڈبلیو سی اے کے بورڈ کا حصہ ہوں گی جن میں ترجیح ان مددگار خواتین کو دی جائے گی جو اسی واٹر کورس سے ہوں جہاں ڈبلیو سی اے قائم کی جائے۔‘ سیکشن 70میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’دو خواتین اراکین جن میں سے ایک کوئی نمایاں وکیل‘ حقوق نسواں کی کارکن‘ صحافی ہو اور ایک خاتون کاشتکار ہو شامل کیا جائے گا۔ ان ترامیم کو مختلف حلقوں کی جانب سے سراہا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ زراعت میں خواتین کے کردار کو تسلیم کرنا انتہائی اہم بات ہے۔ جس کے زراعت جیسے اہم شعبے پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔