مشرق وسطیٰ کی صورتحال۔۔۔

تازہ خبر ہے کہ امریکہ میں ڈیمو کریٹک پا رٹی کی نئی انتظا میہ نے سعو دی عرب اور متحدہ عرب امارات کے لئے جنگی ہتھیا روں کی فراہمی کے معا ہدے پر عملدر آمد روک دیا ہے نئی حکومت معا ہدے پر نظر ثا نی کریگی اس خبر کا پس منظر یہ ہے کہ ری پبلکن صدر ڈو نلڈ ٹر مپ نے یمن اور شام میں خا نہ جنگی کے تنا ظر میں عرب اتحا دیوں کو ہتھیا روں کی فراہمی کا بڑا معا ہدہ کیا تھا معا ہدے کے بعد متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر نے کا اعلا ن کیا خلیج تعاون کونسل نے ایران کے خلاف خلیجی مما لک کی دفا عی تیا ریوں کا روڈ میپ جا ری کیا کویت ، بحرین اور قطر نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی خو ش خبری سنا ئی سعودی عرب نے اسرائیلی جہا زوں کے لئے اپنے ائیر پورٹ کھو لنے کا اعلا ن کیا اور سفارتی محا ذ پر کسی بڑے اعلا ن سے پہلے اسرائیلی شہریوں کے لئے ویزے جا ری کرنے کی منظوری دی اگر انتخا بات میں ری پبلکن پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی تو اب تک عرب اتحا دیوں کو ہتھیار وں کی فراہمی شروع ہو چکی ہوتی لیکن انتخا بات کے نتا ئج نے معا ہدے کا پا نسہ پلٹ دیا اب یہ معا ہدہ منسوخ نہیں ہوگا نئی امریکی حکومت عرب اتحا دیوں سے مزید یقین دہانیاں حا صل کریگی ، مزید مراعات ما نگے گی اور نئی شرائط کے ساتھ معا ہدے کو بر قرار رکھے گی سر دست اس پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور پوری دنیا سوچ رہی ہے کہ اب مشرق وسطیٰ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا پہلی بات یہ ہے کہ اسرائیل کا تحفظ امریکی مفا دات میں سر فہرست رہا ہے اور سر فہرست رہے گا امریکی جمہوریت ، امریکہ میں الیکشن مہم اور وائٹ ہاوس پر قبضے کی پوری حکمت عملی اسرائیل کے تحفظ کے گر د گھومتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ جنگ اور ہتھیار وں کی فروخت امریکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے اگر جنگیں رک گئیں ، خدا نخواستہ امن قائم ہوا تو امریکی معیشت ڈوب جا ئیگی اور امریکہ دنیا کی سپر طا قت نہیں رہے گا یہ دونوں ایسے حقائق ہے جن سے پوری دنیا باخبر ہے، خطے میں اپنی جنگی حکمت عملی کے طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ریا ستوں کو عرب اسرائیل اتحا د کا نیا نعرہ دیا تھا اور ان کو باور کرا یاتھا کہ خلیج ، اسرائیل اور امریکہ کے مفاد ات مشترک ہیں اگر ہم نے مشترک مفا دات کے لئے متحد ہ فورس قائم نہیں کی تو دشمنوں کو موقع ملے گا امریکی دفتر خا رجہ اور پینٹا گا ن کی پا لیسی وہی ہے یہ پا لیسی تبدیل نہیں ہوگی البتہ عالمی سطح پر چین کے خلاف امریکہ کی صف بندی میں تھوڑی سی نر می آئیگی صدر ٹرمپ نے چین کے خلا ف سخت رویہ اختیار کر کے خود بھی نقصان اٹھا یا اپنے قریبی دوست اور بڑے اتحادی بھارت کو بھی نا قابل تلا فی نقصان پہنچا یا ٹر مپ کی غیر متوا زن پا لیسیوں کی وجہ سے گلوان کے بڑے سر حدی علا قے سے بھارت کو چین نے با ہر نکا ل دیا ایرانی بند ر گاہ چاہ بہار سے بھی بھا رت کو بیدخل کیا گیانیز یو رپی یو نین نے مو قع سے فائدہ اٹھا کر چین کے ساتھ تجارت اور سر ما یہ کاری کے بڑے بڑے معا ہدے کئے جر منی ، فرانس ، سپین اور اٹلی جیسے صنعتی مما لک مو قع کے انتظار میں تھے اب چین نے ایک طرف جا پا ن بھارت اور کوریا سے لیکر تر کی تک 15صنعتی مما لک کے ساتھ تجا رت اور سر ما یہ کاری کے معا ہدے کئے دوسری طرف یورپی یو نین کے مما لک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا گو یا امریکہ کے مقا بلے میں میدان ما ر لیا ان تمام امور پر نئی امریکی حکومت کی گہر ی نظر ہے مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحا دیوں کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ نئے دور کے تقا ضوں سے اپنے آپ کو کس طرح ہم آہنگ کر سکیںگے ؟