برف کے کھیل روٹھ چکے۔۔

کینیڈا میں موسم سرد ترین منجمد نقطوں کو چھو رہاہے،شیشوں سے باہر دیکھتی ہوں تو مسلسل برف گرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ گھروں میںچھتوں پر برف کی تہیں جوٹھنڈی ہوا سے اُڑتی ہیں تو روئی کے گالوں کی طرح لگتی ہیں، گھر کے اندر موسم گرم ہے لیکن باہر کی برف اور چل ہوا اندر تک سردی کی ایک لکیرلے کر آہی جاتی ہے۔ داخلی دروازے کو ذرا سا کھول کے دیکھتی ہوں کہ سردی کی شدت کس حد تک ہے، توگھر کے سارے بچے دروازے پر موسم دیکھنے جمع ہوجاتے ہیں او رسخت ٹھنڈی ہوائیں اندر آرہی ہوتی ہیں لیکن مجھے دروازہ بند کرنے کیلئے ان سے سختی کرنا پڑتی ہے ۔میں بچوں کا دکھ جانتی ہوں۔ نہ جانے کتنے مہینوں سے وہ گھر میں قید ہیں۔ ان کے سکول ان سے چھن چکے ہیں،ان کے ننھے منے کلاس فیلوز ان سے دور اسی طرح کمروں میں بند ہیں اور یہاں تک کہ ان کے کزن ، بھائی بہن بھی گھروں میں آکر نہیں مل سکتے۔وہ اکثر پوچھتے ہیں کہ کووڈ اب ختم کیوں نہیں ہوجاتا۔ لیکن یہ سوال تو دنیا کے ہر فرد کے لبوں پر ہے جس کا کوئی جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ماہرین طب اور سائنس پر دسترس حاصل کرنے والے بھی اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ پشاور فون کیا معلوم ہوا یہاں توکورونا جیسی کسی بیماری کا وجود ہی نہیں اگر ہے تو ہسپتالوں کی حد تک اور قبرستان کی حد تک۔ یعنی وہ مریض جو اس وائرس کا شکار ہو کر ہسپتال کے کمروں میں علاج کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور یا پھر وہ جو چند دنوں میں ہی سانس کارشتہ توڑ بیٹھتے ہیں اورابدی سفر کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں۔ باہر کی دنیا اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ کورونا کسی جراثیم کا نام ہے اور وہ مانتے تو ماسک پہن کر فاصلہ رکھتے اور گھروں تک محدود ہوجاتے۔ نظر انداز کرنا اور علم نہ رکھنا بھی شاید دولت کی مانند ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ایسے نظر انداز کرنے والے لوگوں پر کہ وہ ایک رسک لیتے ہیں جوزندگی اور موت کا درمیانی وقفہ ہوسکتا ہے۔ مغرب میں ایسا تصور اور سوچ نہیں ہے اورقانون بھی اتنا سخت ہے کہ اس قسم کا نادان خیال او رناسمجھ سوچ کا قلع قمع کرنے کیلئے پوری طرح چاک و چوبند ہیں۔ اگر چہ کینیڈا میں گزشتہ ایک سال سے لاک ڈاﺅن اور سخت اختیاطی تدابیر لاگو ہوتی رہی ہیں جن میں سکولوں کی بندش ، عوامی اجتماعات پر پابندی، مذہبی اجتماعات میں احتیاطی تدابیر، امریکہ کے ساتھ بارڈر کی طویل بندش اور بے شمار ایسی باتیں جن سے کسی بھی طرح ان دیکھے وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ گو کہ چند مہینے مریضوں کی تعداد کم ہوگئی ، مرنے والوں کے اعداد بھی کم ہوتے گئے۔ لیکن یوم تشکر اور کرسمس کے موقع پر کینیڈا کا بڑے پیمانے پر سفر کرنا، دوست یاروں سے ملنا، حکومتی احتیاطی تدابیر کی پرواہ نہ کرنا بیماری کوایسا بڑھا گیا کہ حکومت کینیڈا کی طرف سے شعبہ صحت کی جانب سے وارننگ جاری ہوگئی جس میں فوری طور پر ہسپتالوں کو 45ہزار ونٹی لیٹر پہنچا دئیے گئے اور ورڈ اور کمروں کے ساتھ متصل سینکڑوں عارضی کمرے بنائے گئے۔ان کاکہنا تھا کہ فروری 2020میں اس مرض کیلئے ہم تیار نہیں تھے اس لئے سینکڑوں لوگ زندگی کی بازی ہار گئے لیکن 2021میں ہم مرض کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن مریضوں کی تعداد خطرے کی حدود تک پہنچ گئی اور تمام سکول کالج یونیورسٹیاں بند کرنا پڑیں،دفاتر،پبلک اجتماعات ہر قسم کے مذہبی اور سماجی اجتماعات پرایسی پابندی لگادی گئی کہ پانچ سے زیادہ لوگ اکھٹے کھڑے نہیں ہوسکتے۔شام 8 بجے کے بعد سب کچھ بند ہوگیا۔کھانے پینے کی اشیاءکے سٹور کھلے ہیں اور وہاں ماسک کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا، کسی کو گھر میں مہمان بلانے پر پابندی ہے ۔ اگر کوئی شخص بھی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا تو گھر کے مالک کو دس ہزار ڈالر اور مہمان کو ایک ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے جرمانہ ادا کرنا ہوگا اور اس جرمانے کیلئے کسی بھی عدالت میں اپیل بھی نہیں کی جاسکے گی۔گاڑی میں صرف اک ہی ایڈریس کے شناختی کارڈ رکھنے والے سفر کر سکتے ہیں پکڑے جانے کی صورت میں بھاری جرمانوں اور جیل جانے کیلئے تیار رہیں اتنی سخت پابندیوں کے باوجود مریضوں کی تعداد صرف ٹورنٹو میں ہزاروں میں ہے دفاتر میں کام کرنے کیلئے کوئی نہیں مرنے والے بھی کسی طرح ایک دن میں ایک سو سے کم نہیں ہیں روزانہ ایک شہر میں ایک بیماری سے200-100 لوگ مر جائیں تو یہ اچھی علامت تو نہیں ہے دیسی خاندان ان پابندیوں کو ذہنی طورپر قبول نہیں کر رہے ہیں برف کے مہینے ایسے ہوتے ہیں کہ گھروں کے اندر کی محفل رونقیں جاری رکھی جاتی تھیں دعوتیں اور رشتہ دار دوستوں کا ملنا جلنا سخت برف کے موسم کو ہنسی خوشی گزار دینا معمول کی بات تھی لیکن ہزاروں ڈالرز کے جرمانے اور قید کی سزا کا خوف سب کو جدا ہو جانے پر مجبور کر دیا ہے افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان نے حکومتی پابندی کو ہلکا لیا اور بیوی نے اپنی چار سہولیوں کو عوت پر بلا لیا ابھی چائے ہی پی جارہی تھی کہ پولیس کو ایک کال موصول ہوئی جب پولیس نے چھاپہ مارا تو خاتون خانہ کو10ہزار ڈالر جرمانہ اسکی سہیلیوں کو ایک ہزار فی کس کے حساب چالان کرکے نکل جانے کو کہا افغان خاوند جو بیوی کو اس دعوت سے باز رکھنے کیلئے سوجتن کرکے گھر سے چلا گیاتھا واپسی پر10ہزار ڈالر کا سن کر روایتی جھگڑے کا مرتکب ہوا اور میاں بوی کی ناچاقی کچھ زیادہ ہی ہوگئی ان دیکھے وائرس نے ہنستے بستے گھروں کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لے لیا ہے کہ اداسی‘ مایوسی‘ بے روزگاری‘ غربت اور بے کسی نے خوشحال لوگوں کو اداس اور ناامید کرکے رکھ دیا ہے فی الحال یہ سخت قسم کا لاک ڈاﺅن مارچ تک ہے اگر حالات کچھ اچھے ہوتے تو شاید لوگوں کو باہر جانے کی اجازت مل جائے ورنہ یہ سلسلہ طویل ہوتا چلا جائے گا بچے اب بھی شیشوں سے گرتی ہوئی برف دیکھتے ہیں کارٹون فلمیں دیکھ دیکھ کر بور ہوتے ہیں اور ماں باپ کو ہی دیکھ دیکھ کر منہ بسورتے رہتے ہیں ان کے دوست اور اساتذہ‘ سکول کا میدان برف کے کھیل برف کے لباس سب روٹھ چکے ہیں لیکن اپنے پیارے رب سے ہاتھ اٹھا کر التماس کرتی ہوں کہ ہم دنیا والوں کو معاف کردے اور دنیا کی خوشیاں لوٹا دے ۔ (امین)