سیا سی استحکام۔۔۔۔

خیبر پختونخوا کی حکومت نے 15ستمبر 2021 کو صو بے میں مر حلہ وار بلدیاتی انتخا بات کرانے کا اعلان کیا ہے یہ آئینی ضرورت بھی ہے عدالتی احکا مات بھی اس کی تائید کر تے ہیں بلدیا تی انتخابات سے عوام کو بے شمار فوائدہیںایک فائدہ سیا سی استحکام کی صورت میں سب کو ملے گا اگر دیگر صو بوں میں بھی 2021کے اندر بلدیاتی انتخا بات ہوئے توپورے ملک میں یکسان نظام حکومت دیکھنے کو ملے گا ملکی ترقی اور عوامی فلا ح و بہبود کے نقطہ نظر سے یہ بہت دور رس فیصلہ ہے سیاسی محا ذ پر بھی اس کی افا دیت اور اہمیت سے انکارممکن نہیں 2018کے عام انتخا بات کے بعد بد قسمتی سے ملک کے اندر سیا سی استحکام نہیں آیا نہ پارلیمنٹ کو کام کرنے دیا گیا نہ ہی پار لیما نی پارٹیوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ایک افراتفری اور انتشار کی صورت پیدا ہو ئی جو اب تک مو جو د ہے ملک میں بلدیا تی اداروں کی مدت2019ءمیںپو ری ہوئی تھی آئین کی رو سے 2019ءہی میں لو کل گورنمنٹ کے انتخابات ہو نے چاہئے تھے لیکن مختلف وجو ہات آڑے آئیں اور لو کل گورنمنٹ کے انتخا بات ملتوی ہوتے رہے جس کی وجہ سے عوامی مسائل میں اضا فہ ہوا سال 2021کو اگر بلدیا تی انتخابات کا سال قرار دیا گیا تو ملک میں سیا سی استحکام کی جا نب ایک اہم قدم ہو گا اس وقت ملک کے تین صو بوں میں حزب اختلاف انتشار سے دو چار ہے اس انتشار کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحا دیوں کو ملے گا خیبر پختونخوا میں 34اضلاع بن چکے ہیں ان میں سے 30اضلاع میں تحریک انصاف کی ضلعی حکومتیں بنیںگی اور 2023ءکے عام انتخا بات میں بھی ان اضلاع کی تما م نشستیں تحریک انصاف کو ملیں گی 4اضلاع میں حزب اختلاف کا پلہ بھاری رہے گا مگر سیا ست میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے یہ سب ملک میں سیا سی استحکام کے اشارے ہیں کیونکہ حزب اختلا ف کی پو زیشن وہی ہو گی جو ہم نے گلگت بلتستان میں دیکھ لیا ہے آگے جا کر 2023کے عام انتخا بات پر بھی اس کا میا بی کا گہرا اثر مرتب ہو گا پا کستان ڈیمو کریٹک مو منٹ میں شامل جما عتیں بلدیاتی انتخا بات میں ایک دوسرے کا مقا بلہ کر کے جو تلخی آپس میں پیدا کرینگی وہ تلخی 2023تک رہے گی اور 2023میں بھی گیارہ جماعتی اتحا د کو جم کر میدان میں آنے کا مو قع نہیں ملے گا سیا سی تجزیہ کار اس صورت حال کو سیا سی استحکام کا اشارہ قرار دے رہے ہیں اب سیا ستدانوں کے سامنے دو امکا نات اور دو راستے ہیں پہلا راستہ یہ ہے کہ حالات کو جوں کا توں رکھا جائے تحریک انصاف اور ان کے اتحا دیوں کو کھلا راستہ دیدیا جائے اس صورت میںملک کا سیا سی نظام چین اور ایران کی طرح ایک جما عتی سسٹم کی طرف جائے گا دوسری پارٹی کی گنجا ئش نہیں رہے گی یہ سیا سی استحکام کی ایک صورت ہے سیا ستدانو ں کے سامنے دوسرا راستہ یہ ہے کہ حزب اقتدار کے مقا بلے میں حزب اختلاف کی جما عتوں کا انتخا بی اتحاد قائم ہو جائے یہ اتحاد واحد پارٹی کی طرح ایک ہی انتخا بی نشان کے ساتھ حزب اقتدار کے مقا بلے میں اپنا منشور ، ایجنڈا،پروگرام اور لا ئحہ عمل عوام کے سامنے رکھے اس صورت میں پارلیما نی سیا ست امریکہ اور بر طانیہ کی طرح دو جماعتی سسٹم کی طرف جائے گی یہ بھی سیا سی استحکام کی طرف پیش رفت کے مترادف ہو گی مگر حزب اختلاف کی جماعتوں میں انتخا بی اتحاد کبھی نہیں ہو گا اسلئے پہلا امکان زیا دہ قوی نظر آتا ہے‘ اگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے متفقہ طور پر سینیٹ اور دیگر محاذوں پر اپنے مشترکہ امیدوار اتارے تو پھر ان کے لئے بھی کامیابی بعید از امکان نہیں اور وہ حکومت کو کسی بھی حوالے سے ٹف ٹائم دے سکتی ہیں۔