صادق خان۔۔۔۔

کوئی نصف صدی پہلے جب امان اللہ خان گھر بار چھوڑ کر پاکستان سے برطانیہ پہنچا تو اس کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہوگی کہ اسے روزگار مل جائے۔ جب اسے بس ڈرائیور کی نوکری ملی تو اس دن وہ پھولے نہیں سمایا ہوگا۔ امان اللہ خان نے اس دوران اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کئی سہانے خواب دیکھے ہونگے لیکن اس نے یہ خواب شاید ہی دیکھا ہو کہ جس شہر کی سڑکوں پر وہ دن بھر بس چلاتا ہے ایک دن اس کا بیٹا،صادق خان اسی شہر کا میئر ہوگا۔ بچپن میں تو یہ خواب صادق خان نے بھی نہیں دیکھا تھا اس لئے کہ جب وہ آرنسٹ بیون کالج میں پڑھ رہا تھا تو یہ کالج اتنی اچھی شہرت کا حامل نہیں تھا۔ لیکن اس نے اپنی ہیڈ مسٹریس ناز بخاری سے ایک بات سیکھی اور پلے باندھ لی کہ زندگی میں کامیابی کے حصول کیلئے انسان کی اپنی رنگت اور خاندانی  پس منظر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔صادق خان ڈینٹسٹ بننا چاہتا تھا لیکن جب ایک استاد نے اس سے کہا کہ تم بحث کرتے ہو وکیل کیوں نہیں بنتے تو اس نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت کس طرف مائل ہے اور اس کیلئے قانون کی تعلیم ہی سودمند ہوگی۔ اس کے بعد اس نے یونیورسٹی آف نارتھ لندن سے وکالت کی ڈگری لی اور سالیسٹر بنا۔ وہ سیاست میں بھی حصہ لیتا رہا اور انسانی حقوق کیلئے بھی سرگرم رہا۔ وہ 1994 ء میں برو آف ونڈزورتھ کا کونسلر منتخب ہوااور 2006ء تک اس عہدے پر فائز رہا۔ وہ لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے کر2006 ء سے 2016ء تک ہاؤس آف کامنز،دارالعوام کا رکن رہا۔ اس نے اپنی سوچ اور خیالات کا برملااظہار کرنے میں کبھی جھجک محسوس نہیں کی۔ اس نے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر کی عراق  پالیسی کی مخالفت کی۔ وہ سابق امریکی صدرکے ٹوئیٹس کا بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتارہا۔ وہ بشری حقوق کے حوالے سے بھی بات کرتا رہا۔صادق خان نے لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے 2016ء میں کنزرویٹو پارٹی کے زاک گولڈ سمتھ کو شکست دے کر لندن کے میئر کا انتخاب جیت لیا۔ یہ انتخاب اس نے ایک دفعہ پھر جیتا ہے۔ اس دفعہ لندن کے میئر کیلئے 20 امیدوار میدان میں آگئے تھے۔ پہلے راؤنڈ میں کوئی بھی امیدوار سادہ اکثریت یعنی پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکا اور دوسرا راؤنڈ ناگزیربن گیا۔ پہلے مرحلے میں صادق خان نے 40 فیصد لیکن دوسرے مرحلے میں 55.2 فیصد ووٹ لیکر اپنے مد مقابل کنزرویٹو پارٹی کے شوان بیلی کوشکست سے دوچار کیا۔ مؤخر الذکر نے صادق خان کو مبارکباد دی لیکن ساتھ ہی امید ظاہر کی کہ دوبارہ منتخب ہونے والا میئر ہر ناکامی کی ذمہ داری مخالف کنزرویٹو (حکمران جماعت)پر نہیں ڈالے گا۔ یاد رہے کہ صادق خان حکمران جماعت سے لندن کو کم مالی وسائل مہیا کرنیکی شکایت کرتا رہا ہے۔صادق خان نے لندن شہر کیلئے بہت کام کیا۔ اس نے نوے لاکھ آبادی کے شہر کے رہنے والوں کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ شہر کو آلودگی سے پاک کرنے کیلئے اقدامات کئے۔ ان دو اہم مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے انہوں نے اس دفعہ بھی وعدہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے کورونا کی وباء نے لوگوں کو روزگار کے مسائل سے دوچارکیا ہے۔ بقول صادق خان وباء اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی نے مل کر بے روزگاری کو بڑھا دیا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ لوگوں کوروزگار فراہم کرنا اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ دوبارہ مئیر منتخب ہونے پر انہوں نے اہل لندن سے وعدہ کیا کہ کورونا وباء کے تاریک دورکے بعد وہ لندن کو بہتر اور شاندار بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے‘ صادق خان کو چاہئے کہ ابھی خواب دیکھتا رہے۔ وہ ایک دن لیبر پارٹی کاصدر بن سکتا ہے اور دارالعوام میں اکثریتی جماعت کا قائد بن کے برطانیہ کا وزیراعظم بھی بن سکتا ہے۔