داخلی و خارجی خطرات۔۔۔۔

 کورونا وبا پھیلنے کے داخلی و خارجی محرکات یکساں توجہ طلب ہیں بالخصوص بیرون ملک سے آنے والے ’کورونا وائرس‘ کی قسم زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہے‘ جس سے بارے میں ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ’غیرملکی کورونا‘ کی آمد کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو اِس کے پھیلاؤ کی جملہ کوششیں ناکام ہو جائیں گی اور نئی اقسام کے وائرس کے خلاف موجودہ ویکسین زیادہ مؤثر بھی نہیں ہے۔ خلیجی ممالک سے براستہ پشاور ائرپورٹ پاکستان آنے والے ایک سو چالیس مسافر کورونا وبا سے متاثر پائے گئے جن کے پاس صحت مند ہونے کی اسناد (میڈیکل سرٹیفیکٹس اور منفی کورونا ٹیسٹنگ رپورٹس) تھیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کے نتیجے میں نئے کیسز میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور خدشہ ہے کہ خلیجی ممالک سے آنے والی پروازوں کے ذریعے کورونا کی انڈین قسمیں (بی ون سِکس‘ ون سیون) پاکستان میں پھیل جائیں گی۔ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی وبا کی موجودگی کے بارے میں شواہد کے ذریعے تصدیق کی جاسکتی ہے اور جب تک شواہد موجود نہ ہوں اُس وقت تک اِس بات کی تردید نہیں کی جا سکتی کہ بھارتی یا غیرملکی کورونا وائرس یہاں موجود نہیں ہے۔ بھارت سے براہ راست پروازوں کا سلسلہ اگرچہ بند ہے لیکن خلیجی ممالک سے یومیہ بارہ ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جا رہا ہے اور خلیجی ممالک کی بھارت کے ساتھ پروازیں جاری ہیں بطور احتیاط پاکستان جو اقدامات کررہا ہے ان میں پروازوں کو محدود کرنا‘ ٹریکنگ اینڈ ٹریسنگ کے ذریعے مسافروں کا کھوج لگا کر انہیں قرنطینہ کرانا‘ سیمپلنگ اور سیکوئنسنگ کے ذریعے وبا کی موجودگی کھوج نکالنا اور ویکسینیشن شامل ہے توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں اس وقت ہونے والی کورونا ٹیسٹنگ وبا کی موجودگی کے بارے میں تو بتا سکتی ہے لیکن ملک میں وبا کی کونسی قسم گردش کر رہی ہے‘ یہ جانچنے کے ذرائع کافی محدود ہیں۔ بھارت میں حالیہ دنوں میں ہونے والی جینوم سیکوینسنگ‘ جسے سادہ الفاظ میں وائرس کی قسم جانچنے کا عمل بھی کہا جا سکتا ہے سے پتا چلا ہے کہ بھارت میں بی ون سِکس‘ ون سیون دیگر اقسام کے کووڈ پر غالب آ چکے ہیں۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ بھارتی قسم کا وائرس دنیا میں پھیل رہا ہے۔ پاکستان میں جینوم سیکوینسنگ بمشکل ہو رہی ہے تو اگر کوئی دعویٰ کرے کہ پاکستان میں کورونا کی بھارتی قسم موجود نہیں تو وہ اس لئے صحیح ہے کیونکہ اب تک سیمپلنگ میں سامنے نہیں آیا لیکن اگر دنیا کے چوالیس ممالک میں یہ پھیل چکا ہے تو ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بھی اِس کی موجودگی ہوگی۔کورونا وبا کے اوائل میں تفتان اور افغانستان کی سرحدیں بند کی گئیں۔ جس کے بعد کرتارپور راہداری کو بھی مختصر عرصے کیلئے بند کیا گیا لیکن اس دوران بھی کووڈ کی وبا پھیلتے ہوئے کئی علاقوں تک پہنچ گئی۔ اب تک کی تحقیق و شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر قرنطینہ کے دوران وائرس کی قسم معلوم نہیں ہوتی اور وائرس کے اثرات یا علامات پوری طرح سے سامنے آنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ تکنیکی طور پر وبا کی کسی بھی قسم کو روکنے کیلئے جینوم سیکوینسنگ اور ٹیسٹنگ کا عمل ہونا لازمی ہے تاکہ وائرس کو کسی بھی طرح سے پکڑا جاسکے اور وہ آبادیوں میں نہ پھیل سکے۔کورونا وبا سے متعلق منفی تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت ویکسین کے بارے میں جھوٹ بول رہی ہے یا پھر پورا سچ نہیں بولا جا رہا ہے۔ یہ منفی تاثر جب تک ختم نہیں کیا جاتا‘ تب تک ویکسین لگوانے کی مہم سست رفتار ہی رہے گی۔ پاکستان میں کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران ٹریکنگ اور ٹریسنگ کے ذریعے ان تمام افراد کا موبائل نیٹ ورک کے ذریعے پتا لگایا گیا تھا جنہیں خود کورونا ہے یا پھر وہ کسی ایسے شخص کے پاس ہیں جن میں کووڈ کی تشخیص ہو چکی ہے۔ اس عمل کو ’ہیلتھ انٹیلی جنس‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اپریل دوہزاربیس سے اُس ”ٹریک اینڈ ٹریسف سسٹم“ کا استعمال کیا جا رہا ہے جو انسدادِ دہشت گردی کیلئے خفیہ ادارے کے زیراستعمال تھا لیکن یہ اقدام جہاں پہلی وبا کے دوران کافی حد تک کارآمد ثابت ہوا وہیں اب اس کے استعمال اور جلد نتیجے ملنے کے عمل پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ ٹریکنگ اور ٹریسنگ وبا کے اوائل میں پھیلاؤ کو روکنے میں کام آ سکتا ہے لیکن پہلے سے موجود وبا کو محدود نہیں کر سکتا۔ اس کیلئے نمونے اور تجزئیات (سیمپلنگ اور ٹیسٹنگ) کرنا ہوتی ہے۔ دوسرا لائق توجہ نکتہ ’غیرضروری رازداری‘ ہے۔ ہر روز کورونا سے متعلق اعداد و شمار وبا سے نمٹنے کا قومی ادارہ (این سی او سی) جاری کرتا ہے۔ اِن اعداد و شمار میں تقریباً ہر چیز بتائی جاتی ہے کہ وائرس کس صوبے میں کتنا زیادہ ہے اور کہاں کتنی اموات ہوئیں لیکن یہ معلومات عام نہیں کی جاتیں کہ کورونا سے کتنی عمر کے اور کتنی تعداد میں افراد کو زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے اور اُن افراد میں خواتین یا مردوں میں سے کونسی جنس نسبتاً زیادہ متاثر ہو سکتی ہے۔ اعدادوشمار کلیدی اہمیت رکھتے ہیں اور اِن کے بغیر منصوبہ بندی سے لیکر بچاؤ (ویکسین) تک کے مراحل خوش اسلوبی سے طے کرنا ممکن نہیں۔