اے امن‘ تجھ میں کتنا سکون ہے۔۔۔

طاقت ور ممالک کی جانب سے جب بھی جنگیں مسلط کی جاتی ہیں تو نتیجہ کیا نکلتا ہے کیونکہ جنگوں نے انسانوں‘ انسانیت کو  تنہائیاں‘ آنسو‘ آگ دھوئیں اور معذوریاں ہی دی ہیں آج کے جدید دور میں جب ہر قسم کے مہلک ہتھیار وجود میں آچکے ہیں اور زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانے کے اسباب تیار کئے جا رہے ہیں تو ان ہتھیاروں کے زور پر لڑنے والی جنگوں نے انسانیت کو ویرانیاں ہی دی ہیں وہ جو امن چاہتے تھے اپنے بچوں کو اپنے گھربار کو میلی آنکھوں سے بچانا چاہتے تھے انہیں زندگی ہم سب ہی کی طرح عزیز تھی انہیں بھی ظلم سے نفرت تھی مقاصد حاصل کرنے والوں کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ جنگ کی تباہی کتنی ہوئی وہ لاشیں نہیں گنتے وہ تو صرف لاشیں گرانے کا اہتمام کرتے ہیں معصوم لوگوں کا قتل عام جتنا خون پھیلے گا ان کے عزائم اور مقاصد پورے ہونگے اور وہ ایسے عزائم ہوتے ہیں جو پھیلتے ہی چلے جاتے ہیں اور انکے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ معصوم لوگوں کو اٹھایا جاتا رہتا ہے جو بموں کو ناکارہ بناتے بناتے اپنی عمریں بتاتے رہتے ہیں اور آخرکار ان کی موت کا دن آجاتا ہے نیٹو کے نام پر جن فوجوں کوافغانستان کی جنگ میں بھیجا گیا ہے اور ان فوجوں میں جن نوجوان سکول کے لڑکوں کو ملک و قوم کے نام پر لڑنے کیلئے بھیجا جاتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ظالم ہیں ہمیں مار رہے ہیں ایک طرح سے تو وہ واقعی ظالم ہیں لیکن شاید ہم میں سے بہت سے لوگ یہ بھی سوچتے ہوں کہ ان کا بھی ایک خاندان ہے بچے ہیں بیوی اور ماں باپ ہیں وہ تنخواہ دار ملازم ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں اس پیشے کو اس لئے اپنایا کہ وہ اپنے ملک کیلئے جان دینگے قصور تو ان دماغوں کا ہے جو مقاصد حاصل کرتے ہیں اور جنگیں مسلط کرتے ہیں قصور ان لوگوں کا نہیں جو تنخواہ دار لوگ ہیں اور ان کا پیشہ ہی یہی ہے جنگ ہوگی تو لڑائی بھی ہوگی لوگ مریں گے بھی‘ ہر دو فریق مصیبت میں مبتلا ہونگے کون بے قصور ہے اور کون قصور وار اسکا فیصلہ کون کرے گا ان جنگوں سے مر جانے والے تو قبر کی مٹی میں جاکر سو جاتے ہیں لیکن جو بچ جاتے ہیں ان کی زندگیاں کیسی ہوتی ہیں وہ کن نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں شاید ہم میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں نیٹو کی جو افواج افغانستان میں آکر جنگ میں شریک ہوئیں اس میں مغربی ممالک کی تقریباً تمام فوجیں شامل تھیں جو اپنی اپنی حکومتوں کی مرضی سے آئی تھیں اور کچھ ابھی تک بیٹھی ہوئی ہیں۔افغانستان نے جتنی لاشیں اپنی فوجوں اپنے شہریوں کی اٹھائی ہیں اتنی ہی ان ممالک میں بھی گئی ہیں جو بظاہر افغانستان سے زیادہ ترقی یافتہ تھے جتنے معذور اور بیوائیں افغانستان میں ہیں نیٹو افواج کے لوگوں کی بھی بیوائیں کبھی نہ آنے والوں کا دروازہ تکتی ہیں انکے بچے بھی اپنے باپوں کی شکلوں کو ساری عمر ہی ترسیں گی جو گئے اور کبھی واپس نہ آئے اور وہ فوجی جو واپس تو آئے لیکن ایسے ایسے نفسیاتی امراض اپنے ساتھ لے کر آئے کہ جنکا عالج ممکن ہی نہیں واپس آنے والوں میں خودکشی کرلینے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے صرف کینیڈا میں اب تک افغانستان سے واپس آنے والے 54 فوجیوں نے اپنے آپ کو خود گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے کینیڈا میں 15ہزار فوجی جو مختلف ممالک سے جنگیں لڑ کر واپس آئے ہیں وہ سب معذور ہیں ان میں صرف4000 وہ فوجی ہیں جو افغانستان کی جنگ سے واپس آئے ہیں معذوری بھی ایک طرح کی موت ہی ہوتی ہے جو ایک دم نہیں آتی پل پل کرکے جان نکالتی ہے واپس آنے والے اور خودکشی کرنے والے فوجیوں میں کینیڈا کا نوجوان فوجی لائنل ڈلیں منڈ بھی تھا جوافغانستان سے زندہ تو واپس آگیا تھا لیکن وہ ذہنی مریض بن چکا تھا اسکے دوست کہتے ہیں افغانستان کوئی پکنگ سپاٹ نہیں تھا ایک سخت محاذ تھا رات دن وہ لوگ حالت جنگ ہی میں رہتے تھے جب افغانستان میں جنگ کی آگ اس حد تک سرد ہوئی کہ نیٹو نے فوجیوں کی تعداد میں کمی کردی تو لائنل ڈیس منڈ بھی واپس آیا وہ ملٹری ہسپتال میں زیر علاج رہا مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ نوواسکو اشیا میں اسکے لئے بستر نہیں تھا جہاں اسکو داخل کرکے علاج کیا جاتا ظاہر ہے اچھا علاج نہ ہونے سے بھی اس کی بیماری اور اسکا غم کتنا بڑھ گیا ہوگا اور پھر اس نے اپنے ہی پستول سے اپنی بیوی اور اپنے دونوں بچوں کو بھی گولی ماردی وہ بچے اور وہ بیوی جو مدتوں اسکے آنے کی آس لگائے بیٹھے تھے اس کی خیریت سے آنے کیلئے دعائیں کرتے تھے وہ سب اس لئے واپس آنے پر کتنا خوش ہونگے لائنل نے یقینا سوچا ہوگا کہ میرے بعد زندگی ان پر ختم ہو جائیگی کیوں نہ اپنے ساتھ انکی زندگی کا بھی خاتمہ کردوں دراصل یہ ڈپریشن کی انتہا ہوگی جنگ نے جہاں لاکھوں جانیں نگل لیں چار جانیں اور سہی گوانتاموبے کی جیل کے اندر کی کہانیاں جنگ افغانستان میں ہر شخص کی اک کہانی ہے ہر غریب الوطن کی اپنی دردناک داستان ہے جنگیں انسانوں کو کہیں عافیہ صدیقی بنا کر برباد کردیتی ہیں کہیں کیوبا کے اندھیارے تہہ خانوں میں ویرانیاں بانٹتی ہیں کہیں راہ چلتے لوگوں کے خون سے اپنا حصہ مانگنا شروع کردیتی ہیں اور کہیں اپنی زندگیاں خود اپنے ہاتھ سے چھین لینے پر اکساتی ہیں۔ جنگ کے اثرات محض ان دنوں تک محدود نہیں ہوتے جب جنگ لڑی جاتی ہے اور آتش و آہن سے انسانوں کو نیست ونابود کیا جاتا ہے بلکہ جنگوں کے اثرات سالہا سال تک انسانی جسموں اور اذہان پر نہ مٹنے والی نقوش ثبت کرتے ہیں۔ اے امن تیرے اس لفظ میں کتنا سکون ہے۔