پولیس رضاکار۔۔۔۔۔

باعث اطمینان ہے کہ ٹریفک پولیس پشاور نے ایک ماہ کے دوران 115 ’کم عمر ڈرائیوروں‘ کے خلاف کاروائیاں کی ہیں جو ضلع بھر میں ’اَنڈر اِیج ڈرائیونگ‘ کے خلاف جاری مہم کا حصہ ہیں۔ بنا ڈرائیونگ لائسنس ڈرائیونگ کرنا جرم ہے لیکن اِس جرم پر قابو پانے کیلئے کبھی بھی خاطرخواہ سنجیدگی سے کاروائیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ صرف کم سن ڈرائیور ہی بنا لائسنس ڈرائیونگ کر رہے ہوں بلکہ پشاور کے منظرنامے میں ایسے بالغ بھی ہیں جو ٹریفک قواعد کا خاطرخواہ احترام نہ کرتے ہوئے یا تو ڈرائیونگ لائسنس بنواتے نہیں یا پھر ڈرائیونگ کرنے والوں کی اکثریت سے طلب کرنے پر ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بنا لائسنس ڈرائیونگ ایک ایسی بات ہے جسے جرم ہی نہیں سمجھا جاتا اور ٹریفک پولیس کی جانب سے بھی سختی نہ ہونے کے باعث ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کی صورت ناقابل یقین حد تک خراب ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر صوبائی دارالحکومت پشاور کی یہ صورتحال ہے تو دور دراز علاقوں کی حالت کیا ہوگی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ٹریفک پولیس کی افرادی قوت میں اضافہ کیا جائے ٹریفک پولیس کے فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ کم سن ڈرائیورنگ کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے عوامی سطح پر شعور اُجاگر کرنا ہوگا کیونکہ کسی کم سن ڈرائیور کے سفر کا آغاز گھرانے کے سربراہ کی اجازت سے ہوتا ہے اور یہ ممکن نہیں ہوتا کہ گھر کے کسی نہ کسی فرد کی اجازت (رضامندی) کے بغیر کوئی کم سن ڈرائیونگ جیسی جرأت کر سکے چونکہ پاکستان میں ’سٹیزن پولیسنگ‘ کا تصور ابھی عام نہیں اور پولیس کی ساکھ اور رویئے بھی ایسے ہیں کہ عام آدمی پولیس سے تعاون نہیں کرتا تو ایسی صورتحال میں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں ہی نے کرنا ہے۔ اگر ضلع پشاور کی سطح پر‘ تجرباتی طور سے‘ سٹیزن پولیسنگ کا آغاز کیا جائے اور کسی فون نمبر یا موبائل فون ایپ کے ذریعے شہریوں کو بطور ’سٹیزن پولیس رضاکار‘ شامل سفر کیا جائے جو کسی بھی لاقانونیت (بظاہر ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیوں) کے بارے اگر ٹریفک حکام کو آگاہ کریں اور ہر درست نشاندہی کے  عوض رضاکار کو بطور انعام ’سٹار (اعزاز)‘ دیا جائے تو اِس سے ٹریفک پولیسنگ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا اور یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ بطور سٹیزن پولیس رضاکار ایک بڑی تعداد قوانین و قواعد کا احترام کرے گی۔ یوں ایک تیر سے دو شکار ممکن ہیں۔خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کو ’عوامی جمہوریہ کانگو (Congo)‘ میں رائج ٹریفک کے متعارف کردہ خودکار نظام کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ جہاں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں اور دیگر الیکٹرانکس آلات کی مدد سے ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی اور اُنہیں جرمانے کئے جاتے ہیں۔ مذکورہ خودکار الیکٹرانک نظام شمسی توانائی کی مدد سے چلتا ہے اور اِسے کنٹرول کرنے کیلئے روبوٹس سے بھی مدد لی جاتی ہے جس کے باعث بنا تھکان چوبیس گھنٹے سڑکوں کی نگرانی ممکن ہوئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ٹریفک روبوٹس بات چیت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جنہیں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) سے لیس کیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ ٹریفک پولیسنگ کا الیکٹرانک خودکار نظام مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں فیصلہ سازوں کو انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم دینے والے اداروں کو بطور تحقیق و ترقی کی دعوت دینا ہوگی تاکہ مقامی ضروریات کے مطابق مقامی طور پر نظام وضع کیا جا سکے۔ٹریفک کے عالمی قوانین و قواعد میں کئی ایک کا تعلق ہماری عادات سے بھی ہے جیسا کہ دوران ڈرائیونگ وہ سبھی ’ممنوع اعمال‘ جنہیں عالمی طور پر ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے ہمارے گردوپیش میں رائج ہیں جیسا کہ کھاتے پیتے ہوئے ڈرائیونگ کرنا‘ سیٹ بیلٹ کا نہ پہننا‘ ڈرائیونگ کے دوران ایک گاڑی اور دوسری گاڑی کے درمیان فاصلہ رکھنا‘ ایسے کام نہ کرنا جن سے توجہ ڈرائیونگ سے ہٹ جائے‘ مقرر رفتار کی حد (سپیڈ لمٹ) کا لحاظ رکھنا‘ علاوہ ازیں بچوں کو کم عمری ہی سے ٹریفک قواعد متعلق تعلیم دینی چاہئے جیسا کہ وہ کبھی بھی دور کر سڑک عبور نہ کریں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ٹریفک قواعد انسانی زندگی کے تحفظ اور انسانی معاشرے کی تہذیب کیلئے وضع کئے گئے ہیں اور اِن پر زیادہ سے زیادہ عمل درآمد کرنے اور اِن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی شعوری کوششیں عام ہونی چاہئیں۔