جغرافیہ کی ضرورت ۔۔۔۔۔

فلسطین‘ اسرائیل‘ یروشلم‘ بیت المقدس‘ غزہ‘ مغر بی کنا رہ‘ یہ سب جغرافیا ئی نا م ہیں ریڈیو، ٹیلی وژن‘ سو شل میڈیا اور اخبارات میں  تسلسل کیساتھ آرہے ہیں لیکن نئی نسل کو یہ علم نہیں کہ ان نا موں کا با ہمی تعلق کیا ہے؟ یہ کہاں واقع ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کا جغرافیہ بہت کمزور ہے میری عمر کے لو گ جب 1960ء اور 1970کے تعلیمی نصاب کا ذکر بیچ میں لاتے ہیں تو ہم پر نا سٹلجک (Nostlegic)کا طعنہ چست کیا جا تا ہے یقینا یہ ما ضی پر ستی ہے بے شک یہ نا سٹلجیہ ہے مگر اس سے فرار ممکن نہیں مستقبل کا ہر سفر ما ضی سے شروع ہوتا ہے ایک دانشورکا قول ہے کہ ”تم نے اگر اپنے ما ضی پر پستول چلا ئی تو مستقبل تم پر توپ چلا ئے گا“ فوج، پو لیس اور سول سروس کے تر بیتی اداروں میں یہ مقولہ جلی حروف میں لکھ کر اویزاں کیا جا تا ہے ماضی کو فراموش کر کے مستقبل کا راستہ معلوم نہیں کیا جا سکتا۔پشتو کا شاعر امیر حمزہ شنواری  کے ایک شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے ”میں ما ضی کی روایات کو لیکر زما نہ حال کے جذبوں کیساتھ مستقبل کی طرف گامزن ہو ں“ 1959میں ہمارے پرائمری سکول کا سب سے دلچسپ سبق جغرافیہ ہوتاتھا اس کا نا م جغرافیہ نہیں تھا اس کو مطالعہ قدرت کہا جا تا تھا‘ تیسری جماعت میں ہم کو ایک گلوب کے ذریعے سمندر اور خشکی کا تصور سمجھا یا گیا ہمارے پرائمری سکول کے 6کمرے تھے جو گاؤں کے لو گوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کر کے دئیے تھے ہر کمرے کی دیوار پر ایک بڑا نقشہ ہو تا تھا یہ چترال کی ریا ست کا نقشہ ہے‘یہ پا کستان کا نقشہ ہے‘ یہ ایشیا کا نقشہ ہے‘ یہ دنیا کا نقشہ ہے‘ استاد جی کی میز پر گلو ب رکھا ہوا ہو تا تھا۔ یہ نا سٹلجیہ ہے آج آپ کسی ہائی سکول یا کا لج میں علم جغرافیہ کی اس طرح کی آگا ہی کا سا مان نہیں دیکھیں گے۔ آج گر یجو یٹ کو نقشہ دیکھنا نہیں آتا کیونکہ تعلیمی نصاب سے نقشہ کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہے۔ اُردو کے ایک استاد جو سالہا سہا کا لج کی سطح پر اُردو پڑ ھاتے رہے‘ ہر سال کمرہ جماعت کیلئے بر صغیر پا ک و ہند کا نقشہ منگوا نا چاہتا تھا ہر سال پر نسپل کہتا تھا کہ تم نے کو نسا جغرافیہ پڑھا نا ہے نقشے کے ساتھ تمہا را کیام کام ہے؟ اتفاق سے اُردو کا پر و فیسر پرنسپل بن کر آیا تو اُردو کے استاد نے پھر نقشے کا مطا لبہ کیا۔پرنسپل نے وہی جواب دیا تو اُردو کے استاد نے کہا مجھے دکن، بیجا پور، گولکنڈہ، لکھنو، امروہہ، دوآبہ، دہلی، انبا لہ، علی گڑھ اور لا ہور میں اُردو کے ارتقا کا سبق پڑ ھا نا ہے علا مہ اقبال اور فیض احمد فیض کا شہر سیالکوٹ دکھا نا ہے احمد فراز کا آبا ئی شہر کو ہاٹ بھی دکھا نا ہے پر نسپل لا جواب ہوا پھر بھی کمرہ جما عت کیلئے نقشہ نہیں ملا۔اُردو کا استاد تختہ سیا ہ پر چا ک سے نقشہ بنا تا رہا ظا ہر ہے پیریڈ کے اختتام پر تختہ سیا ہ کو صاف کیا جا تا تھا۔جغرافیہ سے لا پر واہی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل کو اسرائیل اور فلسطین کے محل وقوع کا علم نہیں، خبروں میں اگر مشرق وسطی کا نا م آئے تو ہماری نئی نسل اس کے محل وقوع سے بے خبر لگتی ہے۔مطا لعہ قدرت میں مٹی، پا نی، پہاڑ، سمندر، ہوا، زمین، آسمان اور فضا کے بارے میں جو آگا ہی دی جاتی تھی وہ مفقود ہے ما حو لیات جدید دور کا اہم مو ضوع ہے 1959ء میں پرائمری سکول کے بچوں کو پڑ ھا یا جا تا تھا کہ چکور کی ٹا نگیں لمبی اور مر غی کی ٹا نگیں چھوٹی کیوں ہو تی ہیں؟ کوے کی چونچ سیدھی اور شا ہین کی چونچ ٹیڑھی کیو ں ہوتی ہے؟ چڑیا کیوں گھو نسلہ بنا تی ہے شاہین گھو نسلہ کیوں نہیں بناتا؟ نصاب ِ تعلیم کو ما حو ل کے ساتھ ایک گو نہ مناسبت ہو تی تھی طا لب علم کو سوچنے اور غور کرنے کا مو قع ملتا تھا بیشک آج  جغرافیہ کی ضرورت سب سے زیا دہ ہے۔ جغرافیہ نئی نسل کو عالمی حا لات سے جوڑ تا ہے دنیا کے حقا ئق سے باخبر کر تا ہے، اپنے ما حول سے جوڑ تا ہے اور ماحول سے جڑ نا سب سے اہم بات ہے 1959ء میں ہمارے سکول کی عما رت کچی تھی مگر اس کے دیواروں پر پکے نقشے تھے کمر ہ جماعت میں مطا لعہ قدرت پڑھا جا تا تھا آج صرف عمارت ہے صرف دیوار یں ہیں نقشہ نہیں، جغرافیہ نہیں، مطا لعہ قدرت نہیں۔