ویکسی نیشن۔۔۔۔۔۔

ہم مارچ میں لندن گئے۔ کورونا کے پیش نظر برطانیہ میں مکمل لاک ڈاؤن تھا لیکن مدافعتی ٹیکوں ’ویکسی نیشن‘  کا عمل زور و شور سے جاری تھا۔ پہلے ڈاکٹروں اور طبے عملے کو ٹیکے لگائے گئے پھر عام لوگوں کی باری آئی جس کے لئے ’جن کی عمر زیادہ ان کی باری پہلے‘ کا اصول اپنایا گیا لیکن کئی بیماریوں میں مبتلا مریض اور سماجی خدمت کرنے والوں کو ترجیح ملتی رہی۔ ویکسی نیشن کے لئے کسی قسم کی شرط عائد نہیں کی گئی جیسے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، غیرملکی کیلئے ویزہ وغیرہ۔ہم نے متعلقہ دفتر کو ویکسی نیشن کے لئے اپنا نام، پتہ اور ٹیلی فون نمبر لکھوایا۔ ہمیں باری آنے پر رابطہ کی یقین دہانی کرائی گئی۔ چند دنوں کے بعد ایک ٹیلی فون آیا پوچھا اگر آپ فارغ ہیں تو 12 مارچ کو ویکسی نیشن ہو سکتی ہے۔ ہم نے15 مارچ تجویز دی اور پونے چار بجے کا وقت طے ہوا۔ہم مقررہ وقت پر مرکز صحت پہنچے تو ایک بزرگ شخص اور ایک خاتون قطار میں کھڑے تھے۔ ایک ملازم نے ہمارا نام پوچھا اور مقررہ وقت کی تصدیق کی۔ بزرگ شخص اور خاتون کے بعد ہم بھی اندر چلے گئے۔سامنے ایک خاتون بیٹھی تھی، ایک میز سجا تھا جس پرکمپیوٹر اورکچھ کاغذ پڑے تھے۔ خاتون نے ہمارا نام چیک کیا اور دو کاغذ ہاتھ میں تھما دئیے۔ کہا ڈاکٹرآپ سے چند سوال پوچھے گا جو ایک کاغذ پر درج ہیں۔ دوسرے کاغذ پر ویکسی نیشن کے بارے میں معلومات دی گئی تھیں۔ ہم بیٹھ گئے۔ ایک ملازمہ مستعدی کے ساتھ ہر خالی ہونے والی کرسی کو سینی ٹائزر سے صاف کرتی رہی۔ہم باری آنے پر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ اس نے ہمارے نام کا اندراج کیا اوراستفسار کیا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے، بخار تو نہیں، کوئی دوائی تو نہیں لی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ہمیں ٹیکہ لگایا اور ساتھ ہی سر  ٹیفکیٹ دیا جس پر اسٹرازینیکا انجکشن کا نام اور لگانے کی تاریخ درج تھی۔ اس پورے عمل میں بمشکل پندرہ منٹ لگے ہونگے۔ہمیں لندن کے محکمہ صحت نے دو  بار  یاد دہانی کرائی کہ ہمارا دوسرا ٹیکہ لگانے کا وقت ہوگیا ہے لیکن ہم وطن لوٹ چکے تھے۔ پتہ چلا کہ اسٹرازینیکا پشاور میں دستیاب ہے تو ہم 19 مئی کو ایک قریبی ویکسی نیشن سنٹر پہنچے۔ جہاں یہ ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ویکسین لگانے کا یہ مرحلہ کیسے طے ہوا ایک حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ مذکورہ ویکسی نیشن سنٹر پر سٹاف کی کمی تھی جس کے باعث نہ صرف سٹاف پر کام کا بوجھ تھا بلکہ ویکسی نیشن کیلئے آنیوالوں کو بھی انتظار کی زحمت کا سامنا تھا۔ میرے  خیال میں کہیں اگر سٹاف کی کمی ہے تو اس کو دور کرنا چاہئے۔کم از کم ایک ڈاکٹر بھی ہونا چاہئے جو وہاں موجود ہو۔عمر رسیدہ افراد آتے ہیں کسی کو مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آنے والے حضرات کو ٹیلی فون کے ذریعے وقت دیا جائے تو سب کے لئے سہولت ہو گی۔