خوشی منائیں مگر

خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں اس لئے اسے دوسروں میں بانٹنا چاہئے۔ خوشی ایک کیفیت کا نام ہے جس کا تعلق احساس سے ہے اور جذبات سے بھی۔ کچھ لوگ تو ایک توازن اور تواضع کے ساتھ احساسات پر جذبات کو حاوی کئے بغیر خوشی اور مسرت سے لطف اندوز ہونے کا ملکہ رکھتے ہیں اور کچھ اس خوبصورت احساس کو والہانہ جذباتی انداز میں طشت از بام کئے بغیرمحظوظ نہیں ہو سکتے۔ یہ ان کا حق ہے لیکن ان کے اس عمل سے بسا اوقات دوسروں کیلئے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔دراصل کوئی بھی عمل بذات خود جیسے بھی ہو وہ انداز جس سے وہ عمل کیا جائے اسے اچھا یا بُرا بنا دیتا ہے۔خوشی کا اظہاردنیا کی اقوام اپنے منفرد انداز میں کرتی ہیں۔ انگریز مسرت کے لمحات میں دوستوں کے ساتھ مل کر دو نعرے لگاتے ہیں، ایک ساتھی کہتا ہے ”ہپ ہپ“ اورباقی ”ہُر رّے“ کہہ کر جواب دیتے ہیں۔ دو تین دفعہ ایسا کہہ کر معاملہ سمیٹ لیتے ہیں۔ آجکل یہ رواج دم توڑرہا ہے اس لئے بھی کہ لوگ شور سے بچنا چاہتے ہیں۔ کئی عرب ممالک میں خوشی کے موقعوں پر جیسے فٹ بال میچ جیتنے پر من چلے نوجوان سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور گاڑیاں دوڑاتے ہوئے ہارن بجا بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ شادی بیاہ میں بزرگ خواتین ایک نعرہ لگاتی ہیں‘یہ چیخ نہیں بلکہ موسیقیت کا ایک انداز رکھتا ہے جو اچھا لگتا ہے۔ ہمارے ہاں سینما میں فلم کے دوران نوجوان سیٹی بجایا کرتے تھے۔ زیادہ تراقوام بالخصوص افریقی برادری رقص کرکے خوشی کابھر پور لطف اٹھاتے ہیں۔ اَب چونکہ دنیا سمٹ کر ایک بستی بن چکی ہے اور اقوام عالم کے رسوم و رواج ایک دوسرے پر اثر ہو رہے ہیں اور ان میں ہم آہنگی بڑھ رہی ہے زیادہ تر ممالک میں کہیں خوشی کا موقع ہو توعموماً گلیوں اور بازاروں میں برقی قمقمے روشن کئے جاتے ہیں اور آتش بازی کے مظاہرے ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں خوشی کے موقع پرچراغاں بھی ہوتا ہے اور آتش بازی بھی ہوتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک اور زیادہ تر ممالک میں آتش بازی کرنے والے پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں جو اِس کام کے ماہرمانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ کام پیشہ ور افراد بھی کرتے ہیں اور ناپختہ من چلے بھی۔آتش بازی سے کبھی کبھار آگ لگ جاتی ہے، ا ملاک کو نقصان پہنچتا ہے اور لوگ بھی زخمی ہوجاتے ہیں۔ اس سے فضا میں آلودگی بھی پھیلتی ہے جو اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کرکہیں کہیں خوشی اور مسرت کے موقعوں پرہوائی فائرنگ ہوتی ہے۔ نیا سال منانے کے لئے سڑکوں اور چوراہوں پرلوگوں کے جمع ہونے کے خیال سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ایک شخص کے سال کے جانے یا آنے پر خوشی منانے پر کسی کے اعترض کا کم ہی جواز بنتا ہے تاوقتیکہ وہ کسی ایسے عمل کا مرتکب نہ ہو جس سے نقص امن یا کسی کو نقصان پہنچے کا اندیشہ ہو۔ملک بھر کے بڑے بڑے شہروں سے نئے سال کے موقع پر آتش بازی اور کہیں کہیں سے ہوائی فائرنگ کی خبریں آتیں رہی۔بدقسمتی سے ہوائی فائرنگ سے کراچی اور لاہور میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ ایک گیارہ سالہ بچہ کراچی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ طبیعات کے اصولوں کے مطابق جو گولی بندوق یا کسی دوسرے اسلحے سے فائر ہو کر جس رفتار سے اُوپرجاتی ہے تقریباً اُسی رفتار سے زمین کی طرف لوٹ آتی ہے اورکسی کے اُو پر گر جائے تو جان لیوا، مکان پرگر جائے تومالی نقصان کا موجب بنتی ہے۔ہمیں اس ماں کے دکھ کا احساس کرنا چاہئے جس کے سامنے اس کے گیارہ سالہ بچے کی لاش پڑی ہوجو کسی من چلے کی ہوائی فائرنگ سے چل بسا ہو۔ خوشی دوسروں کو تکلیف دیئے بغیر بھی منائی جاسکتی ہے۔ اپنی مسرت کا اظہاراور وہ بھی ایسی ہوائی فائرنگ کرکے جس سے لوگ زخمی ہوں اور جانیں چلی جائیں، غلط ہے۔ ہمیں خوشی اور مسرت منانے کا اچھا انداز اپنانا چاہئے۔