ٹریفک

اَسی کی دہائی، یہ وہی زمانہ تھا جب ہم اسلام آباد سے پشاور آتے تو خیر آباد پل پر سے گزر کر خیبر پختونخوا میں داخل ہوتے تو ایک خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوتا۔سڑک کھلا کشادہ اور خوبصورت، ایسے لگتا تھا جیسے ہم کسی ترقی یافتہ ملک میں داخل ہو گئے۔ سڑک کے آس پاس تجاوزات کا تصور نہیں تھا۔ ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب حکومت نے تجاوزات ہٹانے کا فیصلہ کیا اور لوگ سڑک کے کنارے سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی اپنی دوکانیں اور گھر خود گرا رہے ہوتے کہ کہیں سرکاری اہلکار آ نہ جائیں اور قبضہ کی گئی جگہ پرتعمیرات گراتے وقت پوری عمارت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ وہ زمانہ یا آج کا دور کہ سڑکوں پر تجاوزات معاشرے میں ایک شخص کے اثر و رسوخ کی علامت بن گئی ہیں۔ جو شخص جتنا طاقتور ہوگایا حکومت کے کسی محکمے میں جتنی بڑی کرسی پر بیٹھا ہوگا اُس کے گھر کے سامنے سرکاری سڑک پر اتنا بڑا سپیڈ بریکر ہوگا۔بات یہی ختم نہیں ہوتی جس کا بھی بس چلتا ہے اس کی معاشرے میں جو بھی حیثیت ہو وہ اپنے گھر کے سامنے سڑک پر پہلے اپنے دروازے کی سیڑھیاں سڑک پرلے آتا ہے پھر دو چار پتھر سڑک میں گاڑھ دیتا ہے۔ اس کے بعدسپیڈ بریکر یا گڑھا کھود دیتا ہے جیسے شہر نا پرسان ہو۔آج شیر شاہ سوری کے زمانے کا جرنیلی سڑک قبضہ گیروں کے رحم و کرم پر ہے اس پر ایک طرف سے دو گاڑیاں بھی مشکل سے گزرتی ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ موٹر وے پر لوگ بڑے قاعدے اور قانون سے چلتے تھے۔ اب ٹریفک بے ہنگم ہو گئی ہے۔ کئی لوگ اورٹیکنگ کرتے ہوئے اشاروں کا استعمال نہیں کرتے اور ایک لین سے دوسرے لین میں جاتے ہوئے دوسری گاڑیوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ کبھی کبھی چیونٹی کی رفتار سے جانے والی گاڑی تیز رفتار گاڑیوں کے مخصوص لائن میں آ جاتی ہے اور کبھی تیز رفتار گاڑیاں سڑک کے آخری کنارے پر چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ موٹر وے کے دونوں اطراف جو آ ہنی باڑ لگایا گیا ہے وہ جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی ہے۔کبھی تو اِس میں جانور گزر کے سڑک پر آجاتے ہیں اور تیز رفتار گاڑیوں کے نیچے روندے جاتے ہیں۔ ہم نے سواریوں کے بسوں کو جگہ جگہ رکتے دیکھا ہے۔ لوگ اپنی گاڑیاں بھی کھڑی کر کے سستا لیتے ہیں یا نظاروں سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔وہ موٹر وے پربنی آرام گاہوں پر نہیں جاتے۔ شہروں کے اندر توبے ہنگم ٹریفک نے اودہم مچا رکھی ہے۔ موٹر کار اور رکشوں کو تو چھوڑیں  موٹر سائیکل سوارپرواہ ہی نہیں کرتے جس طرف چل نکلے اور جہاں مڑ گئے جیسے ٹریفک قوانین ان کے لئے بنے ہی نہ ہوں۔ وہ ایسے دوڑتے اور بل کھاتے آپ کے سامنے سے گزر جاتے ہیں جیسے ’موت کے کنویں‘ میں اپنی مہارت کے کرتب دکھا رہے ہوں۔ ٹیکسی اور رکشہ والے تو سڑک کے درمیان رک کر سواریاں اُٹھانا کار خیر سمجھتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ ٹریفک پولیس جگہ جگہ موجود ہوتی ہے لیکن وہ بھی لوگوں سے الجھنے سے احتراز کرتی ہے۔ ہم آزادی کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جو جی میں آئے کر گزرو۔ہم قوانین کے احترام کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں قانون کا احترام بھی ہے اور نفاذ بھی ہوتا ہے۔ برطانوی دارالامراء کا رکن پاکستانی نژاد لارڈ نذیر احمد ایک دفعہ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل پر ٹیکسٹ کرتے ہوئے پکڑے گئے اور جیل گئے۔ وہاں وزیر اعظم کو بھی قانون توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ہمیں سعودی فرمانروا شاہ خالد کے ذاتی معالج نے ایک دفعہ بتایا تھاکہ باد شاہ ٹریفک سگنل پر رک جاتے اور جب راستہ کھلتا تو چلتے۔پاکستان کے درویش وزیراعظم ملک معراج خالد بغیر کسی پرٹوکول کے چلتے اور ٹریفک کے اشارے پر رکتے۔ہم نے ملائیشیاء میں دیکھا کہ شہر کے درمیان گاڑیاں آہستہ آہستہ چلتی ہیں اگرراستہ خالی بھی ہو تب بھی لوگ تیز رفتاری سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ ہے قانون کا احترام۔ہم کچھ عرصہ مصر کے شہر قاہرہ میں رہے ہیں۔ وہاں کی ٹریفک بھی بے ہنگم ہے۔ ایک دفعہ ایک ساتھی نے سوال کیا کہ قاہرہ میں ٹریفک سگنل نہیں اور ٹریفک والے بھی نہیں ہیں تو وہاں ٹریفک کیسے چلتی ہے؟ ”اس لئے تو چلتا ہے“ ہم نے جواب دیا۔ کچھ عرصے سے وہاں بھی ٹریفک سگنل قائم ہوئے ہیں اور پولیس بھی موجود رہتی ہے۔اسی طرح ہمارے ہاں بھی پولیس کبھی کبھار ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے میں مدد کی بجائے زحمت کا باعث بنتی ہے۔جہاں کہیں سڑک ہموار اور ٹریفک آسانی سے چل رہی ہو وہاں پولیس والوں نے رکاوٹیں کھڑی کی ہوتیں ہیں اور گاڑیوں کے چیکنگ کا فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ایک تو عوام قانون کا احترام کریں اور دوسرا حکام کو قانون لاگو کرنے کے لئے پُر عزم ہونا چاہیے اور ان کو خود بھی قانون کا احترام کرنا چاہئے تو حالات سدھر جائیں گے۔