بچے سب کے سانجھے

حیات آباد کے ایک بازار میں غیر قانونی سبزی فروش متعلقہ اہلکاروں کے نرغے میں ہیں۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جو حالات کے ستم ظریفی کے باعث اپنے کھیل کود اور تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں ریڑھیاں کھینچنے اور ان پر سبزیاں بیچنے کی مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اہلکار ایک ریڑھی کوالٹ دیتا ہے جس پہ رکھے کھیرے زمین پر بکھر جاتے ہیں۔ یہ سبزی چند کلوگرام سے زیادہ نہیں، نہ اس کی قیمت دو چار سو روپے سے بڑھ کر ہے لیکن یہ ایک بد قسمت بچے کا کل سرمایہ ہے۔ وہ گھر جا کر کیا کہے گا کہ خالی ہاتھ کیوں لوٹ آیا ہے؟ ہوسکتا ہے اسے مار پڑ جائے اور اس کے گھر کا چولہا نہ جلے۔ اپنی سبزی کو زمین پر دیکھ کر یہ بچہ جیسے اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ وہ خوف کے مارے کہ کہیں زندگی بسر کرنے کا سہارا ہی نہ چھن جائے اپنی ریڑھی کی طرف لپکتا ہے تو متعلقہ اہلکار اس کودھکہ دے دیتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتا ہے۔ چند لمحوں کے بعد کیمرے کی آنکھ میں شاید اس منظر کو مزید دکھانے کی ہمت نہیں رہتی۔ اس کم سن بچے کے ساتھ جوسلوک کیا گیا اس کا ذمہ دار صرف ایک اہلکار کو ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔ درحقیقت ہم سب اس معصوم جان کے مجرم ہیں۔ یہ تو اس بچے کے کھیلنے کے دن ہیں۔ سکول جانے کے دن ہیں۔ لیکن اس کی اتنی قسمت کہاں! وہ سکول نہیں جاتا۔ اس میں اس کی اپنی کوئی غلطی نہیں۔ پہلے تو یہ اس کے والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچے کو پڑھائیں اوراگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے۔ پاکستان کے آئین کے دفعہ(پچیس اے) کے تحت ریاست پانچ سے سولہ سال عمر کے ہر بچے کو لازمی تعلیم بغیر کسی معاوضے کے دینے کی پابند ہے۔ یہ صرف ایک معصوم بچے کے مستقل کا سوال نہیں ہے بلکہ پوری قوم کا مسقبل اس سے وابستہ ہے۔ یہ پڑھے گا نہیں تو بھیک مانگے گا، چوری کرے گا یا کسی اور جرم کی طرف مائل ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہمارے ہاں دو کروڑ سے زیادہ بچے اور بچیاں سکول سے باہر ہیں۔ ان کو نظر انداز کرکے ہم اپنی مستقل کے بارے میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے معاشرے میں اتنی بڑی تعداد میں ناخواندہ افراد کی موجودگی میں ایک متوازن، منصفانہ اور درخشاں مستقبل کا خواب دیکھتا ہے تو وہ یقینا خوابوں کی دنیا میں رہ رہا ہے۔ ہمارے ہاں ایک تصور عام ہے وہ یہ کہ بچے ہماری امانت ہیں اور ہم ان کے بارے میں ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ہم اولاد اور جائیداد میں فرق نہیں کرتے۔ پہلے والد جب بچے کو سکول چھوڑتا تو ماسٹر صاحب سے کہتا یہ سب آپ کا ہے فقط ہڈیاں ہماری ہیں یعنی اس کو مارے پیٹیں بس ہڈیاں نہ توڑوائیں۔ خیال کیا جاتا کہ بچے مار پیٹ کی بدولت اچھی پڑھائی کرتے ہیں جو ماہرین نفسیات کی نظر میں خام خیالی ہے۔ آج بھی ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو طرح طرح کی سزائیں دی جاتی ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہتا۔ کئی ماں باپ تو اپنے شیرخوار بچوں کو بازار، جلسے، جلوس اور دھرنوں میں لے جاتے ہیں جہاں بھیڑ بھاڑ اور دھکم پیل ہوتی ہے۔ ایسے موقعوں پر لاٹھی چارج بھی ہوسکتا ہے اور آنسو گیس بھی پھینکی جا سکتی ہے۔ اسی طرح والدین معصوم بچوں کو مصیبت میں ڈالتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی فلاح و بہبود والدین کے ساتھ ساتھ ریاست کی ذمہ داری مانی جاتی ہے۔ اگر کوئی بچہ سکول نہیں جاتا تو والدین سے بازپرس ہوتی ہے۔ والدین کو اختیار نہیں کہ وہ اپنے بچے کو سکول جانے سے روکیں یا اپنی مرضی سے ان کوسکول سے چھٹی کرنے دیں۔ اسلئے کہ بچے ریاست کے بچے ہیں اور دوسری شہریوں کی طرح انکی فلاح و بہبود مملکت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ تعلیم ہر بچے اور بچی کا بنیادی حق ہے۔ یہ اصول اقوام عالم نے تسلیم کیا ہے۔ دنیا کے ممالک نے 2015 میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پائیدار ترقی کے سترہ اہداف جن میں چوتھا ہدف ہر بچے اور بچی کیلئے معیاری تعلیم کو 2030 تک یقینی بنانا ہے، پر اتفاق کیا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے لئے کوشش کرنا نہ صرف ایک ملک کی ذمہ داری بنتی ہے بلکہ یہ اس کی ترقی کیلئے ناگزیر بھی ہے۔ کئی ممالک تو یہ منزل پا چکے ہیں لیکن کئی ایک کو اسے حاصل کرنے کیلئے تگ ودو کرنا ہے۔ ہمارا ملک اخرالذکر ممالک میں شامل ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف کے مطابق دنیا میں 2020 میں 16 کروڑ بچوں سے جبری مشقت لی گئی۔ یہ تعداد گزشتہ سالوں میں بڑھتی رہی ہے اور اس کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ بدقسمتی سے کئی جگہوں پر یہ غیر قانونی دھندہ جاری ہے۔ کئی اہل دل ایسی اشیا خریدنے سے اختراز کرتے ہے جن کی تیاری میں کم سن بچوں کی محنت شامل ہو۔ کئی لوگ بھکاری بچوں کو نقد رقم کی بجائے کھانے کی چیزیں جیسے بسکٹ وغیرہ جو وہ اپنے ساتھ اس مقصد کیلئے رکھتے ہیں، دیتے ہیں تاکہ معصوم بچوں کوبھیک مانگنے پر مجبور کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔ اقوام متحدہ کے ممالک نے 2025 تک بچوں سے زبردستی کی مشقت لینے کو ختم کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے حیات آباد کے بازار میں ریڑھی لگانے والے کم سن بچے کا کیا بنتا ہے؟