23 مارچ‘ قرارداد پاکستان کی اہمیت

آج بھارت میں نریندر مودی سرکار کی حامی متعصب ہندو جماعت بی جے پی نے جس زور و شور سے بھارتی مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کر رکھی ہے۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان میں کتنی سچائی تھی‘ متعصب ہندوؤں کے ہاتھوں مساجد کی پامالی‘ خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی‘ گائے کے گوشت کے استعمال پر مسلمانوں کا قتل عام وہ شواہد ہیں جو دو قومی نظریہ کی اہمیت کا اظہار کرتے ہیں‘ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 8 مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”پاکستان اس دن وجود میں آیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا“ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی‘ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے‘ ہندوستان میں جب پہلا مقامی شخص مسلمان ہوا تو وہ ہندو قوم کا فرد نہیں رہا اسی فرد کے ذریعے ہندوستان میں ایک نئی قوم مسلمان وجود میں آ گئی۔
 امر واقع یہ ہے کہ دو قومی نظریے کا مقصد ہندوؤں سے الگ مسلمانوں کی قومیت کو منوانا تھا جسے قائداعظم محمد علی جناح نے آخر کار منوا لیا۔ پوری قوم آج یوم پاکستان جوش و خروش سے منا رہی ہے تاکہ منٹو پارک لاہور میں قرارداد پاکستان جو 23 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی کی یاد تازہ ہو۔ آج کا دن بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ 82 برس قبل ٹھیک اسی روز برصغیر ہند کے مسلمانوں نے اپنی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو کر بابائے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اپنے لئے ایک الگ وطن کے حصول کا تعین کر کے اس کے لئے بھرپور جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ مسلم قوم اس جدوجہد میں اس قدر ثابت قدم رہی ہے کہ 7 سال کے قلیل عرصہ میں یعنی 14 اگست 1947ء کو اپنا علیحدہ ملک پاکستان بنا ڈالا۔ مغل خاندان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد سیاسی افق پر ہندو قوم ابھرنا شروع ہو گئی تھی‘ 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی انگریز حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے انگریز بھی مسلمانوں کے دشمن بن گئے تھے‘ انہوں نے بطور پالیسی مسلمانوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے ہندوؤں کی حمایت شروع کر دی اور ہندوؤں ہی کے ذریعے من حیث القوم مسلمانوں کو دبائے رکھا۔ سرسید احمد خان پہلے مسلمان رہنما تھے جنہوں نے محسوس کیا کہ ہندو اور مسلمان ہر لحاظ سے دو مختلف قومیں ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔
 اس طرح سے دو قومی نظرئیے کی داغ بیل ڈالی گئی‘ سرسید کے نظریے کو تحریک پاکستان کے دوسرے رہنماؤں نے بھی اپنا لیا۔ چوہدری رحمت علی‘ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح اسی دو قومی نظریہ پر پیش قدمی کرتے ہوئے بالآخر پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ خدانخواستہ پاکستان نہ بنتا تو مسلمانوں کا ہندوؤں کے ہاتھوں کیا حشر ہوتا اس کا اندازہ ماضی اور حال کے واقعات سے کیا جا سکتا ہے۔ 1937ء سے 1939ء تک ہندوؤں کی کانگریس پارٹی کو غیر منقسم ہندوستان کے سات صوبوں میں حکومت کرنے کا موقع ملا‘ اس قلیل عرصہ اقتدار میں متعصب ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جس سے مسلمان بیدار ہو گئے کہ انہیں ہندوؤں سے انصاف کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد انگریز نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ہندوستان سے واپس جانے کے بعد اقتدار کانگریس پارٹی کے حوالے کر دے گا‘ صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر علامہ اقبال نے اپنی رحلت سے چند ہی دن قبل قائداعظم کو مشورہ دیا کہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کی تقسیم کیلئے جدوجہد شروع کر دی جائے جس کا نتیجہ بالآخر قرارداد لاہور کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس قرارداد کو پیش کرنے کا اعزاز بنگال سے تعلق رکھنے والے رہنما اے کے فضل حق کو حاصل ہوا‘ اس سیشن کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی۔ یوم قرارداد پاکستان منانے کا یہی تقاضا ہے کہ قوم ایسے مواقع پر ان مسلمان رہنماؤں کی جدوجہد اور جانی و مالی قربانیوں کو یاد کرے کہ جس کی بدولت آج ہم ایک خود مختار اسلامی ملک میں آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔